خلاصہ: امام حسین (علیہ السلام) نے ایسے حالات میں قیام کیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین میں بدعتیں ایجاد کی جا رہی تھیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جارہا تھا۔ آنحضرت کی نبوت و رسالت کے راستہ کو جاری رکھنے اور تسلسل دینے والے امام حسین (علیہ السلام) ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ حدیث ان مشہورترین احادیث میں سے ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نواسے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔ اس حدیث کو احمد ابن حنبل[1]، ترمذی[2] اور ابن ماجہ[3] نے سعید ابن راشد سے یعلی ابن مرہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ایک دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت پر تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں آپؐ کا امام حسین (علیہ السلام) سے سامنا ہوا جو بچوں سے کھیل رہے تھے۔ آنحضرتؑ نے مہربانی اور خوش مزاجی کے ساتھ ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ان کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ پھر ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ ان کے سر کے پیچھے رکھتے ہوئے ان کے چہرہ کو دو ہاتھوں کے درمیان بلند کیا، چوما اور پھر فرمایا: "حسین منی و انا من حسین، احب الله من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط"، "حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو شخص حسین سے محبت رکھے، اللہ اس سے محبت کرے، حسین فرزند زادہ ہیں، انبیا کے فرزند زادوں میں سے"۔ اسباط یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے فرزند زادے۔ اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حسین، یعقوبؑ کے اسباط کی طرح، میرے سبط ہیں اور ایمان، عصمت اور وحی کے حقائق حاصل کرنے کے لحاظ سے، انبیا اور الہی برگزیدہ افراد کے ہم پلہ ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث کے ذریعہ اپنا اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے انتہائی روحانی اتحاد، معنوی اتصال اور قلبی تعلق کو بیان فرمایا ہے۔ یہ حدیث شیعہ کی طرف سے کتاب کشف الغمہ اربلی میں نقل ہوئی ہے اور اس سے علامہ مجلسیؒ نے بحارالانوار[4] میں نقل کیا ہے۔ لیکن اس کا ماخذ وہی ترمذی کی روایت ہے جس کی سند یعلی ابن مرہ پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اس نے اس روایت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ بعض محققین جیسے جناب بہبودی نے لکھا ہے کہ "اہلسنت علما میں سے جبکہ اکثر اس طرح کی احادیث کی تشریح اور وضاحت کرنے سے دیدہ دانستہ پرہیز کرتے ہیں، صرف قاضی عیاض ہیں جنہوں نے حدیث حسین منی و انا من حسین کی تشریح کرتے ہوئے اس کے حقیقی معنی کا اعتراف اور نقاب کشائی کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ: گویا رسول اکرم (ص) وحی کے نور کے چمکنے سے، جو کچھ حسین (ع) اور آنحضرت کے قاتلوں کے درمیان واقع ہونے والا تھا، اسے جانتے تھے، لہذا خاص طور پر حسین (ع) کا نام لیا اور سمجھا دیا کہ آپؐ اور حسین (ع) محبت کے واجب ہونے اور جارحیت اور جنگ کے حرام ہونے کے لحاظ سے واحد شخص کی طرح ہیں، اور رسول خدا (ص) نے اسی اتحاد اور وحدت پر تاکید کرنے کے لئے فرمایا: جو شخص حسین سے محبت رکھے، اس نے خدا سے محبت رکھی ہے، کیونکہ حسین کی محبت رسول خدا کی محبت اور رسول خدا کی محبت، خدا کی محبت ہے"۔[5]
یقیناً حضرت امام حسین (علیہ السلام)، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرزند اور آنحضرت کی نسل میں سے ہیں اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) شجر نبوت کی شاخوں میں سے ہیں۔ لیکن یہ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "میں حسین سے ہوں" اس سے کیا مراد ہے؟
بعض کا کہنا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد، آپؐ کی حیات، آپؐ کی رسالت اور اس کی بقا پر اور رسالت کی حیات بھی آپؐ کی حیات پر منحصر ہوگئی اور چونکہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے رسالت محمدی کی حیات کے لئے بہت کوشش کی، حتی اپنے عزیزترین افراد کو اس راستہ میں قربان کردیا، رسالت نے امام حسین (علیہ السلام) سے دوبارہ حیات لی اور تسلسل پائی، اسی لیے واقعہ کربلا کے بعد ثابت ہوگیا کہ "الاسلام محمديُ الحدوث حسينيُ البقاء"، اسلام پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ وجود میں آیا اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے ذریعہ باقی رہا۔[6]
لہذا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس حدیث میں، رشتہ داری سے زیادہ گہری بات بیان فرمائی ہے … اور جس چیز کے تحفظ کے لئے امام حسین (علیہ السلام) نے اپنا سارا وجود اس پر قربان کردیا، وہ صرف رسالت کی حیات و حقیقت یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا اسلام ناب ہے۔[7]
اگر کربلا نہ ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت میں سے کچھ باقی نہ رہتا، جو باقی رہتا، ظاہری اسلام تھا جس کا کوئی تعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے نہیں تھا۔
اس کی وضاحت کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد ۶۱ ہجری تک (آدھی صدی آپؐ کے بعد) ایسے واقعات رونما ہوئے کہ گویا کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھا گیا، اخلاقی اقدار کو برائی اور برائیوں کو اقدار قرار دے دیا گیا، دوسرے لفظوں میں جب امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کیا تو آپؑ کے زمانہ کے حالات، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ بعثت جیسے حالات تھے، کیونکہ آنحضرتؐ کا جاہلیت کے دور سے سامنا تھا، اسی طرح حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا زمانہ ایسا زمانہ تھا جب، دین، قرآن اور ہدایت سے کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں دین کے لباس کو جاہلیت کی مختلف شکلوں میں حتی اہل کتاب کے نام پر معاشرہ میں پیش کیا جارہا تھا، ایسی صورتحال میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذمہ داری سونپی گئی کہ دین کو زندہ کریں اور اسلام کو مکمل طور پر متعارف کروائیں اور جھوٹے، من گڑھت اور تحریف شدہ ادیان کے سامنے قیام کریں اور ان کی جڑوں کو کاٹ دیں۔ اسی طرح امام حسین (علیہ السلام) نے بھی ایسے زمانہ میں قیام کیا جب جاہلیت کا دین، دین اسلام کے نام پر حکمرانی کررہا تھا۔ حق و باطل کے درمیان سرخ لکیر جو حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے کھینچ دی، اس سے پہلے یہ خطرہ تھا کہ حق و باطل کی ملاوٹ ہوجائے اور حتی صاحبان بصیرت کو دھوکہ میں ڈال دے، لیکن آنحضرتؑ کے خون کی اس سرخ لکیر کے ذریعہ آسانی سے حق و باطل کو پہچانتے ہوئے حق کی پیروی کی جاسکتی ہے۔ لہذا جب دشمنوں نے حضرت سیدالشہیدا (علیہ السلام) کے خون کی سرخ لکیر کا سامنا کیا تو اپنی شیطانی سرگرمیوں کے لئے راستہ کو بند پایا اور تیزی سے ذلت و خواری کا شکار ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مسند احمد بن حنبل،ج4،ص172۔
[2] سنن ترمذی، ج5،ص324، ح:3864۔
[3] سنن ابن ماجه، ج1،ص 51، ح:144.
[4] بحار الانوار، 43/261۔
[5] بهبودی، در یادنامه علامه امینی، 305،
[6] سيد محمد رضا جلالى، الامام الحسين(ع) سماته و سيرته۔
[7] شيخ باقر قريشى، حياة الامام الحسين(ع)، ص 94۔
Add new comment