خلاصہ: واقعہ کربلا کے بعد یزید نے اہل بیت امام حسین (ع) کو اسیر کرکے شام بلایا تاکہ اپنی فتح و کامیابی کا اعلان کریں لیکن شام کے بازار میں کربلا کے پیمبر امام سجاد (ع) اور حضرت زینب (س) کے خطبات نے یزیدی انقلاب کو رسوائی اور شکست میں بدل دیا۔
واقعۂ کربلا کے بعد یزید نے ابن زیاد کو، اسراء اہل بیت کو شہیدوں کے سروں کے ہمراہ شام بھیجنے کا حکم دیا حکم دیا۔ چنانچہ اہل بیت اطہار(ع) کا یہ کاروان شام روانہ ہوا۔(1)
اسراء اہل بیت(ع) کے شام میں داخل ہوتے وقت یزید کی حکومت کی جڑیں مضبوط تھیں؛ شام کا دارلخلافہ دمشق جہاں لوگ علی(ع) اور خاندان علی کا بغض اپنے سینوں میں بسائے ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ لوگوں نے اہل بیت رسول(ص) کی آمد کے وقت نئے کپڑے پہنے، شہر کی تزئین، باجے بجاتے ہوئے لوگوں پر خوشی اور شادمانی کی کیفیت طاری تھی گویا پورے شام میں عید کا سماں تھا۔
لیکن اسیروں کے اس قافلے نے مختصر سے عرصے میں اس شہر کا کایا ہی پلٹ کر رکھ دیا۔ امام سجّاد(ع) اور حضرت زینب(س) نے خطبوں کے ذریعے صراحت و وضاحت کے ساتھ بنی امیہ کے جرائم کو بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف سے شامیوں کی اہل بیت دشمنی، محبت میں بدل گئی اور دوسری طرف سے یزید کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ تب یزید کو معلوم ہوا کہ امام حسین(ع) کی شہادت سے نہ صرف اس کی حکومت کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوئیں بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہونی شروع ہو گئی تھیں۔
اسراء اہل بیت(ع) اور دربار یزید
یزید نے شان و شوکت کے ساتھ ایک بزم سجائی، جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے۔(2) اس بزم میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔(3)
دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ
حضرت زینب(س) نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: "فكد كيدك واسع سعيك وناصب جهدك فوالله لا يرحض عنك عار ما اتيت إلينا ابدا والحمد الذي ختم بالسعادة والمغفرة لسادات شبان الجنان فأوجب لهم الجنة اسال الله ان يرفع لهم الدرجات وان يوجب لهم المزيد من فضله فإنه ولي قدير". (ترجمہ: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ تیرے روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔ حضرت زینب(س) کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسراء آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیت(ع) کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔
دربار میں حضرت زینب(س) کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسین(ع) کے قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا(4)
یزید نے اطرافیوں سے اسراء آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتہ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لین نعمان ابن بشیر نے اہل بیت(ع) کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔ (5) اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند، یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اسراء اہل بیت(ع) سے ملاقات کیلئے گئ اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاوں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری کرتی، یوں تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینب(س) نے اپنے بھائی کی عزاداری منعقد کی(6)۔
آخرکار اسرائے اہل بیت(ع) کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔ یہ حقیقت میں پیامبران کربلا کے خطبات کا انقلاب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) درسی كہ حسین بہ انسانہا آموخت، ج 11 شہید سید عبدالكریم هاشمی نژاد، ص 326۔
(2) حضرت زینب فروغ تابان كوثر محمّد محمّدی اشتهاردی ص 330۔
(3) بلاغات النساء ابن طيفور، ص 2۔
(4) شیخ مفید، الارشاد، ص358۔
(5) مجلسی، بحار الانوار،، ج45، ص135۔
(6)ابن عساکر، اعلام النسا، ص191
Add new comment