موصل تاریخی اعتبار سے عراق کے اہم شہروں میں سے ایک ہے۔ بغداد کے بعد عراق کی سب سے بڑی آبادی موصل میں ہے، اس وقت موصل داعش کے چنگل میں ہے جبکہ عراقی فوج و رضاکار جوان اپنی پوری قوت کیساتھ اس شہر کی آزادی کے لے کوشاں ہیں۔
موصل سٹی کی آزادی کی مہم دو علاقائی اور بین الاقوامی پیچیدہ منصوبوں پر پانی پھیر رہی ہے اور کم سے کم 10 سال سے اسلام پسندی کو کنٹرول کرنے کے لئے بڑی مقدار میں کی گئی سرمایہ کاری کو اڑا لے گئی۔ بہت سے دستاویز اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ 2006 میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنے کے بعد امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب نے اسلام پسندوں کو آپس میں الجھا کر خاص طور پر مزاحمت کے محاذ سے مقابلے کے ہدف سے ظاہری مذہبی تنظیم کے ذریعے مشترکہ منصوبے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ منصوبے کے سربراہ کی حیثیت سے امریکا نے اپنے تمام علاقائی امکانات کو استعمال کیا۔ مندرجہ ذیل نکات کسی حد تک ان دو پیچیدہ منصوبوں اور موصل کی مہم کی اہمیت کا انکشاف کرتے ہیں۔
1- 2006 کی جنگ میں حزب اللہ لبنان کی زبردست کامیابی کی وجہ سے وہ عرب اور اسلامی ممالک کی امیدوں کے محور میں تبدیل ہوگئی۔ اس طرح سے کہ مصر، اردن، فلسطین، الجزائر اور سوڈان جیسے ممالک کے عوام نے سید حسن نصر اللہ کی تصویر اپنے گھروں میں لگائی اور وہ سید کو عرب رہنما کے طور پر دیکھنے لگے۔ یہ موضوع امریکا اور علاقے کے اس کے اتحادیوں کی نظر میں اسرائیل سے جنگ میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی سے زیادہ اہم تھا اور اس کے لئے انہوں نے سر میں سر جوڑ کر فکر کرنا شروع کردیا۔ اس درمیان سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ شیعہ اور سنی بہت زیادہ ایک دوسرے سے نزدیک ہو گئے تھے اور خطرہ اس بات تھا کہ انقلاب اسلامی مغربی ایشا سے شمالی افریقہ تک اپنے اثرات مرتب کرے، اس لئے امریکا، صیہونی حکومت اور سعودی عرب نے وقت ضائع کئے بغیر تیزی سے اقدامات شروع کئے اور انہوں نے اپنی مہم کے لئے کچھ جگہیں معین کیں
ان کے منصوبے کا دو اصلی ہدف یہ تھا کہ ایک طرف تو ایران کے انقلاب کے محور میں شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنےکے لئے آگ کی دیوار کھڑی کرنا تھا اور دوسری جانب انہوں نے اہل سنت کے درمیان افراتفری مچا کر اسلام پسند پارٹیوں کو بر سر اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوشش کی کیونکہ ان پارٹیوں کو امریکا اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ امریکا اور اس کے عناصر یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اگر مسلمان انقلاب اسلامی کے محور میں جمع ہوگئے تو وہ ایران کی ہدایات پر ہی عمل کریں گے اور اگر کسی اسلامی ملک میں ایک گروہ یا پارٹی ایران کے انقلاب اسلامی کے اہداف کے مشابہ ہدف لے کر بر سر اقتدار ہوگئی تو ان کا بوریا بسترا بندھ جائے گا۔ حزب اللہ سے جنگ میں اسرائیل کی شکست سے تقریبا بارہ سال پہلے ساموئل ہانٹینگٹن نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سیاسی اسلام کی تحریک کے پیدا ہونے کی بابت خبردار کیا تھا۔
2- مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں اسلام کے سیاسی قدرت میں تبدیل ہونے کو روکنا، امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کا اصل ہدف تھا لیکن یہ سب منصوبے امریکا کی سربراہی میں انجام پا رہے تھے لیکن نجد اور بئر السبع میں زیر ٹریننگ مسلمانوں کو جو سبق سکھایا گیا، وہ خلافت اسلامی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے جانفشانی تھی کیونکہ پہلے سے ہی یہ نظریہ پایا جاتا تھا کہ ایران کے معنوی انقلاب سے صرف معنوی اور مذہی میدان میں ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بنا پر اس منصوبے کی ذمہ داری سعودی عرب کے حوالے کی گئی تاکہ وہ اپنی وہابی تعلیمات اور تجربوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے زیر ٹریننگ مسلمانوں کو تیار کرے۔
بہرحال موصل کی آزادی کی مہم نے ایک ساتھ دو منصوبوں کو ناکام کر دیا۔ ایک منصوبے کو امریکا کی نام نہاد بین الاقوامی محوریت کے اعتماد کا نام دیا جا سکتا ہے اور یہ منصوبہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے روکنا تھا، یہ منصوبہ بھی پوری طرح ناکام ہو گیا اور ایران کی محبوبیت میں اضافہ ہوا۔ دوسری جانب اسلامی معاشرے کے اتحاد کی ضرورت کا پہلے سے زیادہ احساس کیا جانے لگا کیونکہ سیکورٹی کا بڑا خطرہ منہ کھولے کھڑا ہے۔ دوسرا منصوبہ گمراہ خلافت کو وجود میں لانے کا منصوبہ تھا اور اس منصوبے کو آگے بڑھانے والے گروہ یہ سمجھے بغیر کہ کسی بڑی سازش کا وہ شکار ہوگئے، اس کو آگے بڑھاتے رہے اور موصل سٹی کی آزادی کی مہم نے اس منصوبے کو بھی ناکام بنا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://alwaght.com/ur/News/71630
Add new comment