امام سجاد علیہ السلام نے واقعہ کربلا میں مثالی کردار ادا کیا، آپ نے اپنی اسیری اور اسیری کے بعد مختلف حوالوں سے کربلا کے پیغام کو زندہ کیا۔
امام سجاد(ع) واقعۂ کربلا میں اپنے والد امام حسین(ع) اور اولاد و اصحاب کی شہادت کے دن، شدید بیماری میں مبتلا تھے اور بیماری کی شدت اس قدر تھی کہ جب بھی یزیدی سپاہی آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے، ان ہی میں سے بعض کہہ دیتے تھے کہ "اس نوجوان کے لئے یہی بیماری کافی ہے جس میں وہ مبتلا ہے"۔(1)]
اسیری کے ایام
عاشورا سنہ 61 کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کرکے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجاد(ع) نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کئے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف (2) کراتے ہوئے یزید کے گماشتوں کے جرائم کو طشت از بام کردیا اور اہل کوفہ کی ملامت کی۔(3)]
امام سجاد(ع) نے کوفیوں سے خطاب کرنے کے بعد ابن زیاد کی مجلس میں بھی موقع پا کر چند مختصر جملوں کے ذریعے اس مجلس کے حاضرین کو متاثر کیا۔ اس مجلس میں ابن زیاد نے امام سجاد(ع) کے قتل کا حکم جاری کیا (4) لیکن حضرت زينب سلام اللہ علیہا نے مداخلت کرکے ابن زياد کا خواب شرمندہ تعبیر نہيں ہونے دیا۔
اس کے بعد جب یزیدی لشکر اہل بیت(ع) کو "خارجی اسیروں" کے عنوان سے شام لے گیا تو بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
جب اسیران آل رسول(ص) کو پہلی بار بزم یزید میں لے جایا گیا تو امام سجاد(ع) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امام(ع)نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہ(ص) ہمیں اس حال میں دیکھیں!؟(5) یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔(6)]
اسیری کے بعد
امام سجاد(ع) نے واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی کوشش کی۔
پانی پیتے وقت والد کو یاد کرتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔ ایک روایت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ امام سجاد(ع) نے (تقریبا) چالیس سال تک اپنے والد کے لئے گریہ کیا جبکہ دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کا خادم کھانا اور پانی لا کر عرض کرتا کہ آئیں اور کھانا کھائیں تو آپ(ع) فرمایا کرتے: "فرزند رسول اللہ بھوکے مارے گئے! فرزند رسول اللہ(ص) پیاسے مارے گئے!"، اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں گھل مل جاتے تھے؛ آپ مسلسل اسی حالت میں تھے یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔(7)]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع :
(1) کشف الغمه ابو نعیم اصفہانی ج 2 ص .107
(2) طبقات ابن سعد ج5 ص162
(3) صفة الصفوة ج 2 ص 54
(4) الاولیاء ج 3 ص 136
(5) سید الاهل، زین العابدین، ص 47
(6) شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 113.
(7) منتهی الامال،ج 1، ص 733
Add new comment