تعلیمات عاشورا

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں اس بات کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم کو کربلا سے کن تعلیمات کو حاصل کرنا چاہئے، کون کونسی تعلیمات ہیں جو امام حسین(علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے ہمارے لئے پیش کی ہیں۔

تعلیمات عاشورا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کے ہر گوشہ کو درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے، روز عاشورا کی تعلیمات ہر انسان کے لئے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ان تعلیمات کو اپنائیں تاکہ امام حسین(علیہ السلام) کے حقیقی محبت کرنے والوں میں اپنا نام درج کروا سکیں، اسی غرض سے  اس مضمون میں امام حسین(علیہ السلام)کی بعض تعلیمات کو بیان کیا جارہا ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں:

۱: حریت اور آزادی
     تحریک کربلا کا سب سے اہم درس آزادی، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے، جس کے بارے میں خود امام حسین(علیہ السلام) نے فرمایا: «مَوْتٌ‏ فِي‏ عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ‏ حَيَاةٍ فِي ذُل‏[۱] عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے»،  اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: «لا و اللّه لا اعطيهم بيدى اعطاء الذليل‏، و لا اقرّ اقرار العبيد[۲] خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا»۔
     اسی طریقے سے کربلا میں جب آپ کو جنگ اور بیعت کے درمیان مقید کر دیا تو آپ نے فرمایا: «ألا و إنّ‏ الدّعىّ‏ بن‏ الدّعىّ‏ قد ركز بين اثنتين بين الذلة و السلة، هيهات منّا الذلة[۳] ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے شمشیر اور ذلت کے درمیان لا کر کھڑا کردیا ہے، ہم ذلت سے پناہ مانگتے ہیں»۔

۲: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
     تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے قیام کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے،  لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ جس کے بارےمیں امام حسین(علیہ السلام) اپنے بھائی محمد حنفیہ کو  بیان فرمارہے ہیں: «أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي (ص) أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي‏عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب‏[۴] میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور نانا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے»۔
     امام(علیہ السلام) کے یہ کلمات امام(علیہ السلام) کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں، امام حسین(علیہ السلام) نے عصر عاشورا اس فریضہ الہی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا، واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے۔

۳: رضا اور تسلیم
     ایمان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ خدا کے قضاء اور قدر پر راضی رہنا ہے۔ رضا، خدا سے محبت کی نشانی ہے۔
     واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے، امام حسین(علیہ السلام) کوفہ کے راستہ میں فرزدق سے ملاقات کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمتوں پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔[۵]
     آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ »۔
     البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے لیکن اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن مقام عمل میں ثابت قدم رہنا صرف امام حسین(علیہ السلام) اور ان سے حقیقی محبت کرنے والوں کے لئے ممکن ہے۔

۴: اخلاص
     اخلاص مکتب عاشورا کا ایک واضح اور گراں قیمت گوہر ہے، تحریک عاشورا کی بقا کا راز اخلاص ہے، خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا، اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔
     وہ اخلاص ہی تھا جس کی وجہ سے کوئی چیز امام(علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کو اس مقصد سے روک نہ سکی، عاشورا میں وہی افراد موجود تھے جو مجسمہ اخلاص تھے، خلوص ایسی چیز ہے جسے صرف خدا ہی پرکھ سکتا ہے اور خدا کا خالص بندہ صرف خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی جان کو اس کی راہ میں نچھاور کرنے کو آسان اور معمولی بات سمجھتا ہے۔
     درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں، اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عمل جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتا ہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا، اس طریقہ سے زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

۵: حجاب اور عفت
     عورت کی کرامت اور بزرگی اس کی عفت اور پاکدامنی میں چھپی ہوئی ہے اور حجاب، عورت کی عفت اور پاکدامنی کو محفوظ رکھنے اور سماج کو اخلاقی برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے، امام حسین(علیہ السلام)، حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) اور آپ کے خاندان پاک نے کربلا کی تحریک میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حجاب کی رعایت پر بےانتہا تاکید کی ہے۔
     تاریخ عاشورا میں عفت اور پاکدامنی کے بہت سے نمونے ہیں لیکن افسوس کہ جب ہم اپنے سماج کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو جو حجاب اور پردہ ہمیں اپنی خواتین میں نظر آتا ہے وہ کربلا کی خواتین سے کوسوں دور ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درس ہمیں کربلا کی انسانیت ساز تاریخ سے لینا چاہیے اور ان کے ذریعہ اپنی زندگی کو سعادتمند بنانا چاہیے، ہم نے نہیں لیا۔

نتیجہ:
امام حسین(علیہ السلام) کے قیام کا مقصد، زندگی کی صحیح روش اور طریقہ کو اپنانا ہے اور اگر یہ روش اور طریقہ میدان عمل میں نظر نہ آئے تو کل قیامت کے دن امام حسین(علیہ السلام) کو کیا جواب دیں گے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، دار إحياء التراث العربي،ج۴۴،ص۱۹۲، ۱۴۰۳ق.
[۲]۔ابو مخنف كوفى، وقعة الطفّ، جامعه مدرسين؛ قم،ص۲۰۹، ۱۴۱۷ق.
[۳]۔حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول )صلى الله عليه و آله(،جامعه مدرسين، ص۵۸، ۱۴۰۴ق.
[۴]۔ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۲۹۔
[۵]۔ابن طاؤس ، علی ابن موسی،اللھوف علی قتل الطفوف،(ترجمہ فھری)، جھان، النص ، ص۷۴ ۱۳۴۸ش۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 54