امام سجاد (علیہ السلام ) کا تاریخی خطبہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگ متحیر ہو کر رہ گئے اور اسی طرح یزید ملعون بھی مجبور ہو گیا کہ آپ کو رہا کر دے اور جب آپ نے اپنا تعارف کروایا تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ کی اسیری پر رونے لگے۔

امام سجاد (علیہ السلام ) کا تاریخی خطبہ

امام سجاد (علیہ السلام ) اگرچہ یزید ملعون کی قید میں تھے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پاؤں میں بیڑیاں گلے میں خار دار طوق، یہ سب ہونے کے باوجود بھی ان کا خوف یزید اور یزیدیوں پر طاری تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب امام سجاد (علیہ السلام) نے یزید سے کہا کہ مجھے خطبہ دینے کی اجازت دی جائے تو اس نے خوف کے مارے انکار کر دیا۔
یہ سب کچھ یزید کا بیٹا معاویہ بھی دیکھ رہا تھا تو اس نے اپنے باپ یزید سے کہا انہیں کہنے دو جو بھی کہتے ہیں تو بیٹے کے جواب میں اس نے کہا کہ تمہیں ان کی فصاحت اور بلاغت کا اندازہ نہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کا خطبہ لوگوں کو ہمارے خلاف بڑھکا نہ دے اور اگر لوگ ہمارے سامنے آگئے تو ہمارا کچھ نہیں بچے گا۔
ادھر معاویہ ابن یزید نے کہا اور ادھر لوگوں نے بھی اصرار کیا کہ انہیں اجازت دی جائے۔
اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا  کہ مجھے ڈر ہےکہ کہیں یہ ابوسفیان کے خاندان کو رسوا نہ کر دے۔
آخر کار بیٹے اور شامیوں کے اصرار پر اس نے اجازت دے دی، اور امام سجاد (علیہ السلام) منبر پر آئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، آپ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
امام سجاد (عليہ السلام) نے ارشاد  فرمايا:
آپ نے سب سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثنا کی اور پھر فرمایا:
اے لوگو! خداوند متعال نے ہم آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو چھ خصلتوں سے نوازا ہے اور سات خصوصيات کي بنا پر ہميں دوسروں پر فضيلت عطا فرمائي ہے، ہماري چھ خصلتيں: علم، حلم، بخشش، سخاوت، فصاحت، شجاعت ہیں، اور ہميں برتري عطا کي سات خصوصيات کي بنا پر: خدا کے برگزيدہ پيغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، اور صديق اکبر (اميرالمؤمنین علي ابن ابی طالب) جعفر طيار، شير خدا اور شير رسول خدا حمزہ سيدالشہداء، اس امت کے دو سبط حسن و حسين (علیھماالسلام)، زہرائے بتول اور مہدي امت (عليہم السلام) ہم  میں سے ہيں۔
اور پھر فرمایا: لوگو! جو مجھے جانتے ہیں سو جانتے ہیں اور جو مجھے نہيں جانتے ميں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کرواتا ہوں۔
اے لوگو! ميں مکہ و مِنٰي کا بيٹا ہوں، ميں زمزم و صفا کا بيٹا ہوں، ميں اس بزرگ کا بيٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپني عبا کے دامن سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کيا، ميں بہترينِ عالم کا بيٹا ہوں، ميں بہترين طواف کرنے والوں اور بہترين لبيک کہنے والوں کا بيٹا ہو، ميں اس کا بيٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، ميں اس کا بيٹا ہوں جس نے ايک ہي شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰي کي طرف سير کي، ميں اس کا بيٹا ہوں جس کو جيرائيل سدرۃالمنتہي تک لے گيا، ميں اس کا بيٹا ہوں جو زيادہ قريب ہوئے اور زيادہ قريب ہوئے تو وہ تھے دو کمان يا اس سے کم تر کے فاصلے پر،ميں اس کا بيٹا ہوں جس نے آسمان کے فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی، ميں اس رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا بيٹا ہوں جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحي بھيجي، ميں محمد مصطفي (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) اور علي مرتضي (عليہ السلام) کا بيٹا ہوں۔
یہ خطبہ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
(1) بحار الانوار ،ج 45 ص 139، مقتل ابی مخنف صفحہ 135 ۔ 136، ریاض القدس جلد 2 صفحہ 328، ناسخ التواریخ ج ۲ صفحہ 167 ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41