خلاصہ: اس مضمون میں چھل، عدد چالیس کو آیات اور روایات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے اور آخر میں اس کو امام حسین(علیہ السلام) کے چہلم سے مرتبط کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چہلم سے مراد کیا ہے ؟علماء نے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے لیکن جس بات کا شیخ طوسی(رح) نے استخراج کیا ہے کہ زیارت اربعین سے مراد ۲۰،صفر کو امام حسین(علیه السلام) کی زیارت ہے، جو عاشورہ کے بعدچالیسواں دن ہے اس لئے اس بزرگوار نے اس روایت کو کتابِ تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے اور اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے جسے مرحوم محدث قمی نے بھی مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے۔ لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں ؟اسکا جواب قرآن مجید کی اس آیت کہ ذریعہ دیا جاسکتا ہےجس میں خداوند متعال ارشاد فرمارہا ہے: «إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً[سورۂ احقاق، آیت:۱۵] یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا۔
اسی طرح بعض انبیاء چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے، مثال کے طور پر حضرت علی(علیہ السلام) نے ایک ادمی کو جواب دیا جب اس نے سوال کیا کہ عزیر پیغمبر کتنے سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوئے، آپ نے فرمایا: «بعثہ اللہ و لہ اربعون سنة[۱] رسالت کے آغاز میں انکی عمر چالیس سال تھی» اور خود نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چالیس سال کی عمرمیں مقام رسالت پر فائز ہوئے جیسا کہ معتبر روایات میں آیا ہے۔[۲]
اسی طرح دعاوں میں اور بعض دینی معارف میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے۔ مرحوم علاّمہ مجلسی(رح) ایک دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خدا کے نام ہیں یوں نقل کرتے ہیں: «لو دعا بہا رجل اربعین لیلة جمعةغفراللہ لہ[۳] اگر کوئی شخص چالیس شبہائے جمعہ کو خداوند متعال کی بارگاہ میں اس دعا کو پڑھے تو خدا اسکو بخش دے گا»۔
خدا کو مخصوص اذکار کے ساتھ یاد کرنا خصوصا عدد چالیس کے ساتھ اسکی بہت زیادہ سفارش کی گئی ہے۔ جسطرح رات کو جاگنا اور نماز کا پڑہنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کے قنوت میں استغفار کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوند متعال انسان کو جملہ سحر میں استغفارکرنے والےلوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں انکو نیکی سے یاد کیا ہے ۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: «لا یجتمع اربعون رجلاًفی امر واحدالّااستجاب اللہ[۴] چالیس مسلمان جمع نہیں ہوتے خدا سے کسی چیز کا چاہنے میں مگر یہ کہ خداوند متعال اسکو قبول کرتا ہے»۔
ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نےفرمایا: «من اخلص العبادة للہ اربعین صباحاًجرت ینابیع الحکمةمن قلبہ علیٰ لسانہ [۵] اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی عبادت صرف اور صر ف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ اسکے دل سے زبان پر جاری کر دیگا»۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:«من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللہ یوم القیامة عالماًفقیہاًو لم یعذّب[۶] ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے خداوند متعال اسکو قیامت کے دن عالم، دانشمند اور فقیہ محشور کرے گا»۔
البتہ اس بات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ کرنے سے مراد صرف عبارات کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے اسکو اسکے پورے لوازمات کے ساتھ حفظ کرنا ہے اور حقیقت میں اس سے مراد حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکا رائج کرنا ہے»۔
اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے، امام جعفر صادق(علیه السلام) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: «اذا بلغ العبد اربعین سنة قدانتھی منتھاہ [۷] جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اسکی عقل کامل ہو جاتی ہے »۔
اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اس میں چالیس دن تک شرکت کی سفارش بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ:«من صلّی اربعین یوماًفی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللہ براءتان :براءةمن النار و براءةمن النفاق[۸] وہ شخص جو چالیس دن تک مرتب ابتداء سے نماز جماعت میں شرکت کرے خداوند اسکو دو چیزوں سے محفوظ رکھے گا ایک آتش جہنم اور دوسرے نفاق اور دوروئی سے»۔
اسی طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ: «انّ السماءوالارض لتبکی علی المومن اذامات اربعین صباحاًو انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین شھراً[۹] جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے زمین اور آسمان چالیس دن تک اسکے لئے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ روتے رہتے ہیں»۔
یہ ان روایات کا خلاصہ تھا کہ جن میں چالیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے، واقعی مومن اور عالم کا مصداق پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آئمّہ طاہرین(علیہم السلام) ہیں، زمین اور آسمان جن کے فراق میں چالیس مہینہ گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین(علیه السلام) کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور انکی شہادت اس قدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔ اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے منتھی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام رضا(علیه السلام)نے ریّان بن شبیب سے کہا: اے شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو میرے جدّ کی مصیبت پر گریہ کرو کہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا، یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اسکے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] : بحارالانوار،ج۱،ص۸۸،ح۷
[۲] : بحار الانوار ج۵۱،ص۸۸۲،ح۵۲
[۳] : بحار الانوارج۵۹ص۶۸۳ ح۶۲
[۴] : بحارالانوار،ج۳۹، ص۴۹۳، ح۶
[۵] : بحارالانوارج۳۵ ،ص۶۲۳، ح۰۲
[۶] : بحارالانوارج۲، ص۳۵۱ ، ح۱
[۷] : بحارالانوارج۶،ص۲۱، ح ۷
[۸] : بحارالانوار ،ج۸۸، ص۴، ح۵
[۹] : بحارالانوار،ج۲۴، ص۸۰۳،ح۳۱
منبع: http://razarizvi.blog.ir/2015/12/01
Add new comment