خلاصہ: جب اہل حرم کا قافلہ شہر کوفہ کے دار الامارہ میں ابن زیاد کے روبرو پہنچا تو اس وقت ابن زیاد نے امام سجاد علیہ السلام سے گفتگو کی، اس گفتگو کے دوران امام علیہ السلام نے ابن زیاد کے ہر سوال کا دندان شکن جواب دیا، جسے سن کر ابن زیاد آگ بگولہ ہو گیا۔
واقعہ عاشورا کے بعد اسیری کے عالم میں جب اہلبیت رسول( علیہم السلام) کوفہ کے دارالامارہ میں پہنچے تو اس وقت کوفہ کے حاکم ابن زیاد( لعنۃ اللہ علیہ) سے امام سجاد علیہ السلام کی کچھ اس طرح گفتگو ہوئی: ابن زیاد نے کوفہ کے دار الامارہ میں امام علی ابن حسین (علیہما السلام) سے مخاطب ہو کر پوچھا: آپ کون؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا ’’ میں علی ابن حسین( علیہما السلام) ہوں‘‘۔
ابن زیاد نے کہا: کیا علی ابن حسین کو خدا نے ( کربلا میں) قتل نہیں کر دیا؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: علی ابن حسین نام کا میرا ایک بھائی تھا جسکو ظالموں نے قتل کر دیا۔
ابن زیاد بولا: نہیں، خدا نے اسےقتل کیا ہے!
امام علیہ السلام نے سورۂ زمر کی بیالیسویں(42) آیت سے استفادہ کرتے ہوئے فرمایا: «اللهُ یَتَوَفَّى الاَْنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا» ؛ [زمر؛ 42](اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے)(یعنی اگر چہ خداوند عالم، موت کے وقت ہر شخص کی جان کو لیتا ہے لیکن میرے بھائی کو کچھ ستمگروں نے شہید کیا ہے)۔
ابن زیاد اس دندان شکن جواب سے غصہ میں آگیا اور کہا: تم جرأت و جسارت کے ساتھ میرا جواب دے رہے ہو؟! ابھی بھی تمہارے اندر مجھے جواب دینے کی ہمت باقی ہے؟ اس کو لے جاؤ اور اس کا سر قلم کر دو!!
جب جناب زینب سلام اللہ علیہا نے یہ دیکھا تو امام علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لیکر ابن زیاد سے فرمایا: جتنا چاہا ہمارے خون کو بہایا، اب بس، پھر فرمایا: «وَاللهِ لا اُفارِقُهُ، فَاِنْ قَتَلْتَهُ فَاقْتُلْنی مَعَهُ» (خدا قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی، اگر ان کو قتل کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کرو)۔
ابن زیاد نے جناب زینب اور امام سجاد(علیہما السلام) کو دیکھ کرتعجب سے کہا: «عَجَباً لِلرَّحِمِ» کیا عجیب محبت ہے!
پھر کہتا ہے: خدا کی قسم، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ساتھ قتل ہونا چاہتی ہے۔ (علی ابن حسین) سے صرف نظر کر لو کیونکہ یہ سب ان کے رنج و غم کے لئے کافی ہے[1]۔
سید ابن طاووس اپنی کتاب میں اس ماجرا کو (کچھ فرق کے ساتھ) بیان کر کے لکھتے ہیں: امام سجاد علیہ السلام نے اپنی پھوپھی سے مخاطب ہو کر فرمایا: پھوپھی جان! آپ صبر کیجئے تاکہ میں اس سے بات کر سکوں؛ اس کے بعد ابن زیاد کی جانب رخ کر کے فرمایا: «اَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، اَما عَلِمْتَ اَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَهٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَهُ»؛ اے ابن زیاد! مجھے قتل کی دھمکی دیتا ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہید ہونا ہمارے لئے کرامت و افتخار کا باعث ہے۔
اس گفتگو کے بعد ابن زیاد نے جو کہ مکمل طور پر شکست کھا چکا تھا، حکم دیا کہ علی ابن حسین اور ان کے ساتھ کے دیگر افراد کو مسجد کے کنارے ایک گھر میں ٹھہرایا جائے[2]۔
اہل فکر و نظر اس گفتگو کی کیفیت اور اس وقت کی صورت حال کا جائزہ لینگے تو انہیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہوگا کہ امام سجاد علیہ السلام کی شجاعت اور جناب زینب سلام اللہ علیہا کی دلیری کس منزل پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] ارشاد مفيد، ص 473 - 474 و ملهوف (لهوف)، ص 202 (کچھ فرق کے ساتھ) اور اسی طرح: تاريخ طبرى، ج 4، ص 350۔
[2]ملهوف (لهوف)، ص 202۔
Add new comment