خلاصہ: واقعۂ کربلا کے بعد، اہل حرم کی اسیری کا آغاز ہوا، اسیرے سے لیکر رہائی تک، جس مقام پر بھی اہل حرم کو خاص کر کے امام سجاد علیہ السلام کو موقع فراہم ہوتا، وہ اپنی حقانیت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
جس وقت اسیران اہل حرم کا قافلہ کوفہ میں داخل ہوا، اس وقت لوگون کا جم غفیر تماشائی بن کر اکٹھا ہوا؛ خاندان رسول کے لئے یہ ایک اچھی فرصت تھی کہ ابن زیاد کے دربار میں جانے سے پہلے لوگوں کے سامنے حقیقت کو واضح کرسکیں اور تحریک عاشورا سے روشناس کروا سکیں۔
دربار ابن زیاد میں جانے سے پہلے امام سجاد علیہ السلام نے لوگوں سے خاموش ہونے کا اشارہ کیا، اس تکونی اشارہ کی خاصیت یہ تھی کہ لوگوں کی سانسیں تھم گئیں اور ایک عجیب سکوت چھا گیا۔
حزیم ابن شریک اسدی کہتے ہیں: اس وقت امام سجاد علیہ السلام نے حمد و ثنائے الہی کو بجا لانے کے بعد، رسول خدا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:( اے لوگو! جو کوئی ہمیں جانتا، پہچانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں کون ہوں اور جو ہمیں نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں علی ابن حسین(علیھما السلام) ہوں کہ جن کو لب فرات پر بغیر کسی جرم و خطا اور بنا کسی خون بہا کے، ذبح کردیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا گیا اور ان کے خاندان کو اسیر کیا اور میں اس کا فرزند ہوں جس کو صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور یہی افتخار ہمارے لئے کافی ہے۔
اے لوگو! تمہیں خدا کی قسم ہے؛ کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے ہی میرے والد کو خطوط لکھے اور ان کودعوت دی بعد میں انھیں دھوکہ دیا؟ ان کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا اور ان کے نمایندہ کے ساتھ بیعت کی اور پھر اہم وقت و حالات میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا اور ان سے جنگ کرنے لگے اور ان کو رسوا کیا۔ واے ہو تم پر، نابودی ہو تمہارے لئے، تم نے کتنا برا توشہ آخرت فراہم کیا، تمہارا عقیدہ اور کردار کتنا برا تھا۔ کس آنکھ سے پیغمبر کو دیکھوگے جب وہ یہ کہیں گے کہ تم نے میری عترت کو قتل کیا اور میری حرمت کو پامال کیا تو اب تم ہماری امت میں سے نہیں ہو)[1]۔
حزیم کہتے ہیں: جب امام علیہ السلام کی گفتگو اس مقام تک پہونچی تو لوگوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، ہر طرف سے رونے کی آواز آنے لگی، سب ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم سب ہلاک ہو گئے اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوا[2]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] «اَیُّهَا النّاسُ! مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی، وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْنِی فَاَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ الْمَذْبُوحِ بِشَطِّ الْفُراتِ مِنْ غَیْرِ ذَحْل وَ لا تِرات، اَنَا ابْنُ مَنِ انْتُهِکَ حَرِیمُهُ وَ سُلِبَ نَعِیمُهُ وَ انْتُهِبَ مالُهُ وَ سُبِیَ عِیالُهُ، اَنَا ابْنُ مَنْ قُتِلَ صَبْراً، فَکَفى بِذلِکَ فَخْراً.
اَیُّهَا النّاسُ! ناشَدْتُکُمْ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُونَ اَنَّکُمْ کَتَبْتُمْ اِلى اَبِی وَ خَدَعْتُمُوهُ، وَ اَعْطَیْتُمُوهُ مِنْ اَنْفُسِکُمُ الْعَهْدَ وَ الْمِیثاقَ وَ الْبَیْعَهَ ثُمَّ قاتَلْتُمُوهُ وَ خَذَلُْتمُوهُ؟ فَتَبّاً لَکُمْ ما قَدَّمْتُمْ لاَِنْفُسِکُمْ وَ سَوْاهً لِرَاْیِکُمْ، بِاَیَّهِ عَیْن تَنْظُرُونَ اِلى رَسُولِ اللهِ(صلى الله علیه وآله) یَقُولُ لَکُمْ: قَتَلْتُمْ عِتْرَتِی وَ انْتَهَکْتُمْ حُرْمَتِی فَلَسْتُمْ مِنْ اُمَّتِی ».۔
[2]مکمل خطبہ کے لئے مندرجہ ذیل کتب کی طرف مراجعی کریں:
احتجاج طبرسى، ج 2، ص 117 - 119 و بحارالانوار، ج 45، ص 112 – 113۔
Add new comment