خلاصہ: تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ کربلا میں قبر امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کرنے والے پہلے صحابی پیامبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جابر ابن عبداللہ انصاری ہیں۔
جابر ابن عبداللہ انصاری کو جیسے ہی امام حسین (علیہ السلام) کی شھادت کی خبر ملتی ہے تو آپ سفر کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ آپ کے بڑھاپے کی وجہ سے یزیدی حکمران آپ کے سفر میں رکاوٹ نہیں بنتے، آپ اپنے شاگرد «عطیہ عوفی» کو بھی اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ہیں۔ آپ کے اس سفر کے سلسلہ میں شیخ طوسی نے لکھا ہے کہ آپ 20 سفر کو کربلا میں پہنچتے ہیں اور آپ قبر امام حسین (علیہ السلام) کے پہلے زائر ہیں۔ [1]
اسی طرح سید ابن طاووس نے بھی اس سفر کو لکھا ہے کہ آپ نے یہ سفر عطیہ عوفی کے ساتھ کیا اور یہ لکھا کہ عطیہ عوفی کہتے ہیں کہ جابر نے پہلے مجھ سے کہا کہ مجھے فرات لے جاؤ اور وہاں جا کر غسل کیا اور پھر قبر حسین(علیہ السلام) پر آئے اور آکر سلام پیش کیا اس کے بعد کچھ باتیں کیں اور پھر زیارت پڑھنا شروع کر دی اور پھر چار رکعت نماز بھی پڑھی اور اس کے بعد جناب علی اکبر کی قبر کی طرف پلٹے اور اس کو بھی بوسہ دیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد جابر نے بقیہ شھداء کی طرف رخ کیا اور ان کی زیارت پڑھی اور آخر میں مجھ سے کہا کہ مجھے حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کی قبر کی طرف لے جاؤ وہاں بھی قبر پر بوسہ دیا اور بہت گریہ کیا اور پھر زیارت پڑھی اور دو رکعت نماز انجام دی۔[2]
در حقیقت واقعہ کربلا کے بعد بنی امیہ کی طرف سے امام سجاد (علیہ السلام) پر بہت دباؤ تھا اور ہر وہ آدمی جو امام سجاد (علیہ السلام) کی ملاقات کے لیے آتا تو اس پر کڑی نظر رکھی جاتی اور اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کیا جاتا اور یہی چیز سبب بنی کہ امام سجاد (علیہ السلام) کے دوست و یاور بہت کم نظر آئے[3] اور ایسے شرائط کے ہوتے ہوئے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری، امام سجاد(علیہ السلام) کے پاس آتے تھے البتہ بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ صحابی پیامبر ہونے اور بزرگی کی وجہ سے انہیں کبھی کچھ نہیں کہا گیا یعنی ان کی ملاقات میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی فقط انہیں بنی امیہ کے باشندوں نے اپنی نظر میں رکھا تھا۔[4] شیخ طوسی اور ابن شهرآشوب نے جابر ابن عبدالله انصاری کو اصحاب امام زین العابدین(علیہ السلام) میں بھی شمار کیا ہے۔[5]
جابر کہتے ہیں:
مروان کہ جو یزیدی حکمران تھا اس نے حکم دیا کہ نماز عید سعید فطر بقیع میں پڑھی جائے گی اور میں عید والے دن صبح ابھی اذان ہو رہی تھی کہ گھر سے نکلا اور مسجد رسول کی طرف چل پڑا اور راستے میں بہت لوگوں نے مجھے اس طرف جاتے ہوئے دیکھا اور کچھ لوگوں نے پوچھا ادھر کیوں جا رہے ہو آج عید تو بقیع میں پڑھائی جائے گی تو میں نے ہر ایک کو جواب دیا کہ میں مسجد رسول کی طرف جا رہا ہوں لیکن جب میں مسجد رسول میں پہنچا تو وہاں پر سید الساجدین امام زین العابدین (علیہ السلام) کو اکیلے پایا، امام سجاد (علیہ السلام) نے جب نماز صبح انجام دی تو میں نے بھی امام کے ساتھ پڑھی اس کے بعد امام نے سجدہ شکر کیا اور پھر دعا مانگی اور میں نے آمین کہا اور پھر سورج طلوع ہو گیا، امام قبلہ رخ کھڑے ہو گئے اور ایک لمبی دعا مانگی۔[6]
جابر ایک مرتبہ امام سجاد (علیہ السلام) سے ملنے آئے تو اجازت طلب کی امام باقر (علیہ السلام) بابا کے پاس آتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ بابا آپ سے کوئی ضعیف ملنے آئے ہیں، امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہاں وہ جابر ابن عبداللہ انصاری ہیں انہیں آنے دو ، جب جابر اندر آئے تو جیسے ہی امام سجاد (علیہ السلام) کو دیکھا تو عرض کیا یابن رسول اللہ شدت عبادت کی وجہ سے آپ کتنے لاغر ہوگئے ہیں، اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں، خداوند متعال نے بہشت آپ کے لیے بنائی ہے اور جہنم آپ کے دشمنوں کے لیے، امام سجاد (علیہ السلام) نے ان کے جواب میں فرمایا: اے صحابی پیامبر!
کیا تم نہیں جانتے کہ خداوند متعال نے پیامبر کو بہشت کی بشارت دی پھر بھی پیامبر نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پاؤں میں ورم آ گئے اور جب پیامبر سے پوچھا گیا کہ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو کہ میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
جابر نے جب یہ بات سنی تو عرض کیا کہ اپنے حال پر رحم کیجیے تاکہ زندہ رہ سکیں، ہاں میں ایمان رکھتا ہوں کہ آپ ہی کی وجہ سے پورے عالم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں اور بلائیں دور ہوتی ہیں۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اپنے اجداد کی سیرت پر عمل کرتا ہوں۔
جابر نے لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ اے لوگو! خدا کی قسم اولاد پیامبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں، میں نے علی ابن الحسین جیسا عبادت گزار نہیں دیکھا، یہ زین العابدین ہیں انہیں پہچانو۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1]. شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195.
[2]. سید بن طاووس، مصباح الزائر، ص 286 ـ 288؛ بحارالأنوار، ج 98، ص 329 ـ 330.
[3]. حسین بن سعید، کتاب زهد، ص 104؛ بحارالأنوار، ج 7، ص 284.
[4]. رجال کشی، ص 123؛ بحارالأنوار، ج 71، ص 220 و ج 7، ص 284.
[5]. رجال طوسی، ص 85 و مناقب، ج 4، ص 176.
[6]. سید بن طاووس، اقبال الأعمال، ص 285 ـ 287؛ بحارالأنوار، ج 88، ص 7؛ مستدرک الوسائل، ج 6، ص 155 و 455.
[7]. بشارة المصطفی، ص 66 ـ 67؛ امالی طوسی، ص 636؛ بحارالأنوار، ج 68، ص 1485 ـ 187.
Add new comment