خلاصہ: واقعۂ کربلا کے بعد امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کے دو اہم اور نمایاں پہلو نظر آتے ہیں؛ ایک ان کی اسیری کی زندگی اور دوسرے اسیری کے بعد کی زندگی، ان دونوں دور کی زندگی میں امام علیہ السلام کا مخصوص طرز زندگی رہا ہے۔
تاریخ کربلا اور حالات اہل حرم اور خاص طور پر امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کسی بھی متعلقہ تاریخی کتب میں کیا جائے تو اس نتیجہ تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کو واقعۂ کربلا کے بعد دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔۱۔ امام کی اسیری کا دور۔۲۔ رہائی کے بعد کا دور۔
الف:۔ امام کی اسیری کا دور۔
امام علیہ السلام کے اسیری اور قید وبند کے دور کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ ایک ایسا دور نظر آتا ہے جس میں امام علیہ السلام ایک قہرمان کی طرح اپنے دشمن کے تمام اعتراضات کا دندان شکن جواب دیتے ہیں اور باطل کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے آشکار کرتے ہیں۔ کوفہ میں ابن زیاد کے سامنے وہ جرأٔت مندانہ گفتگو کی کہ ابن زیاد آگ بگولہ ہو گیا اور حکم دیا کہ ان کو قتل کر ڈالو [1] اور اگر جناب زینب(س) دفاع نہ کرتیں یا ابن زیاد کا انہیں قیدی بنا کر شام لے جانا مقصود نہ ہوتا تو وہ شاید اس جرم کا مرتکب ہو جاتا۔
بازار کوفہ میں بھی اپنی پھوپھی زینب(س) اور اپنی بہن سکینہ کے ساتھ ایک ولولہ انگیز تقریر کی جس سے وہاں کے لوگوں میں ایک ہیجان برپا ہوگیا[2]۔ شام میں چاہے یزید کا دربار ہو یا مسجد ہو، تمام لوگوں کے سامنے حاکم وقت کے مظالم کا پردہ فاش کیا اور اہلبیتؑ کی حقانیت و امامت و خلافت کو ثابت کیا اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا[3]۔
ب:۔ رہائی کے بعد کا دور۔
جوکہ ایک طولانی دور ہے اس میں امام سجاد علیہ السلام پہلے دور کے برخلاف بالکل خاموش اور نرم مزاج ہیں لیکن یہاں ذہن میں یہ سوال ایجاد ہوتا ہے کہ پہلے دور میں اسیر ہونے کے باوجوداتنے انقلابی اور جوش و خروش کے ساتھ اور دوسرے دور میں بظاہر آزاد ہوتے ہوئے خاموش اور تقیہ جیسی حالت میں، آخر اس کاراز کیا ہے؟
اسکا جواب ممکن ہے کہ اس طرح ہو کہ پہلے دور میں امام علیہ السلام کو اصل و حقیقی حکومت اسلامی کے لئے لوگوں کے ذہنوں کو آمادہ کرنا تھا اور اسکے لئے مقدمہ سازی کرنا تھی اور لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرنا ضروری تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ امام حسین علیہ السلام کون تھے؟ ان کو کیوں شہید کیا گیا؟ ان کا پیغام کیا تھا؟ ان کا مقصد کیا تھا؟موجودہ حاکم کے ظالمانہ اور ذلیل چہرے کو بے نقاب کرنا تھا۔ لیکن دوسرے دور کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب امام سجاد علیہ السلام ایک عام شہری کی حیثیت سے مدینہ میں داخل ہوتے ہیں اور مصلحت کے تحت خاموش زندگی بسر کرنے لگتے ہیں اور اپنے کام کا آغاز خانۂ خدا اور حرم رسولؐ سے کرتے ہیں اور دعاؤں[4]کے ذریعہ اسلامی معارف کی ترویج کرتے ہیں اور ممکنہ صورتحال میں محدود شاگردوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
----------------------------------------------------------------
[۱]ابن زیاد سے مکمل گفتگو سے آگاہی کے لئے مراجعہ کریں’’ارشاد مفيد، ص 473 - 474 اور تاريخ طبرى، ج 4، ص 350. ‘‘ کی طرف۔
[2] اس خطبہ کا مطالعہ کرنے کے لئے مراجع کریں’’احتجاج طبرسى، ج 2، ص 117 - 119 و بحارالانوار، ج 45، ص 112 - 113‘‘ کی طرف۔
[3] شام میں ارشاد کئے گئے خطبوں کے لئے مراجعہ کریں:
دانشنامه امام حسين عليه السلام بر پايه قرآن، حديث و تاریخ ج8، ص332۔
بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔
[4] امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں کے مجموعے صحیفۂ سجادیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔
Add new comment