خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کے ایک حصہ میں آپؑ نے اپنے اور اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ کی جانب سے عطا شدہ صفات کا تذکرہ کیا ہے، جن میں سے پہلی صفت علم ہے، آپؑ کے علم کے بارے میں اس مضمون میں گفتگو کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ: اگر امام سجاد (علیہ السلام) شام میں وہ خطبہ ارشاد نہ فرماتے تو حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قیام اور شہادت کی حقیقت بہت سالوں تک چھپ کر رہ جاتی یا ہمیشہ کے لئے تاریخ میں دب کر طاق نسیان پر رکھ دی جاتی اور کائنات کا اتنا عظیم واقعہ اور اہل بیت (علیہم السلام) کی اتنی بڑی قربانیاں ضائع ہوجاتیں۔ لہذا حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کا یہ خطبہ عاشورا کی حیات اور اسلام کی بقا کا باعث بنا ہے۔
انداز خطاب: حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) منبر پر رونق افروز ہوئے اور خطبہ شروع کیا۔ ابو مخنف کا کہنا ہے کہ "فجعل یتکلم بکلام الانبیا٫ بعذوبۃ لسان و فصاحۃ و بلاغۃ"[1]، "آنحضرتؑ، انبیا٫ کی طرح بات کرتے تھے، اسی مٹھاس، فصاحت اور بلاغت میں"۔
مناقب کے مصنف کا کہنا ہے کہ "خطب خطبۃً ابکیٰ منہا العیون و اوجل منہا القلوب[2]" ، "آپؑ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جس سے آنکھوں کو رلا دیا اور دلوں کو دہلا دیا"۔
خطیب منبر سلونی کا بیٹا منبر کی بلندی پر: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ. أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے"۔
اس مضمون میں ان چھ عطیات میں سے صرف علم کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔ حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) کے فرمان کے مطابق اہل بیت (علیہم السلام) کو چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں جن میں سے پہلا علم ہے۔
حضرتؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم عالم ہیں، بلکہ فرمایا: ہمیں علم عطا ہوا ہے۔ علم ایک لحاظ سے، اکتسابی اور لدنی میں تقسیم ہوتا ہے۔ اکتسابی وہ علم ہوتا ہے جو لوگوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس میں غلطی اور خطا کا امکان ہوتا ہے، اسی لیے تو سب علمی شعبوں میں ماہرین کا مختلف مضامین میں باہمی اختلاف دکھائی دیتا ہے اور اگر بعض علمی موضوعات پر ایک علم کے ماہرین کا اتفاق ہوا بھی ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ اس متفقہ فیصلہ میں پائداری اور ثابت قدمی نہیں تھی۔ لیکن جب علاّم الغیوب ذات کی طرف سے علم عطا ہو تو وہ علم ایسے حقائق کو بیان کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی مومن شک و شبہ میں نہیں پڑتا۔ اہل بیت (علیہم السلام) علوم الہیہ کے عالم ہیں، یہ علوم بہت وسیع پیمانے پر ہیں، مگر واضح رہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کا علم ذاتی نہیں، بلکہ جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، لہذا حضرت زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ "ہمیں عطا کیا گیا ہے"۔ لیکن ان حضراتؑ جیسا بھی کوئی نہیں جسے ان کے علم جیسا علم عطا کیا گیا ہو۔
حضرت زین العابدین (علیہ السلام) کے علم غیب کے سلسلہ میں دو واقعات کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:
۱۔ ابوخالد کابلی کا کہنا ہے کہ میں حضرت علی ابن الحسین (علیہماالسلام) کی خدمت میں شرفیاب ہوا تا کہ آنحضرتؑ سے دریافت کروں کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلحہ آپؑ کے پاس ہے، تو جونہی آنحضرتؑ کی نظر مجھ پر پڑی (میرےدریافت کرنے سے پہلے) آنحضرتؑ نے فرمایا: اے اباخالد! کیا تو چاہتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلحہ تمہیں دکھاوں؟ میں نے عرض کیا: یابن رسول اللہ! میں اسی مقصد سے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آنحضرتؑ نے بڑا سا برتن منگوایا اور اس میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار نکالی اور فرمایا: "ھذا واللہ ذوالفقار" ، "اللہ کی قسم یہ ذوالفقار ہے"۔ آنحضرتؑ نے ایک عمامہ نکالا اور فرمایا: یہ سحاب ہے۔ نیز عَلَم، قضیب، نعلین اور وہ عبا نکالی جس میں پیغمبرؐجمعہ کے دن خطبہ پڑھا کرتے تھے، اور آنحضرتؑ نے مجھے بہت ساری چیزیں دکھائیں کہ میں نے عرض کیا: کافی ہے، میں آپؑ پر قربان ہوجاوں ۔[3]
نکات: اس تعجب خیز واقعہ سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیں: (۱) امام کا غیب سے علم اور ابوخالد کی نیت اور مقصد سے آگاہ ہونا، (۲) امامؑ کی ولایت و امامت، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ چیزیں صرف اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس ہی ہوسکتی ہیں، (۳) حضرتؑ کا صاحب معجزہ ہونا اور اذن پروردگار سے ان چیزوں کو اس برتن سے نکالنا، (۴) غیب سے ظاہر کرنے میں کسی قسم کا بخل نہیں کیا، کیونکہ ابوخالد نے تو صرف تلوار کے بارے میں سوال کیا تھا، مگر مولاؑ نے اتنی چیزیں دکھائیں کہ اس نے خود کہہ دیا کہ کافی ہے میں آپؑ پر قربان ہوجاوں۔
۲۔ فرزدق نے جب خانہ کعبہ کے پاس، ہشام کے سامنے حضرت زین العابدین (علیہ السلام) کے فضائل میں اشعار پڑھے اور اسے مکہ اور مدینہ کے درمیان قید کردیا گیا تھا اور اسے قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی دعا سے آزاد ہوگیا تو آنحضرتؑ کے پاس آیا اور عرض کیا: میرا نام ان کے رجسٹر میں تھا اور سالانہ مجھے کچھ پیسہ دیتے تھے، اب انہوں نے میرا نام مٹا دیا ہے تاکہ مجھے سالانہ نہ دیں۔ حضرتؑ نے فرمایا: سال میں تمہیں کتنا دیتے تھے؟ اس نے عرض کیا: فلاں مقدار۔ حضرتؑ نے چالیس سال کے اخراجات اسے دیئے اور فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہیں اس سے زیادہ کی ضرورت ہے تو تمہیں دیتا۔ نقل میں ہے کہ فرزدق بالکل چالیس سال مزید زندہ رہا۔[4]
نکات: اس واقعہ سے بھی چند باتیں ثابت ہوتی ہیں: (۱) امامؑ کے پاس علم غیب ہوتا ہے جس میں موت و حیات کا بھی علم شامل ہے، (۲) اہل بیت( علیہم السلام) جتنا چاہیں اللہ کے اذن سے سخاوت کرتے ہوئے عطا فرما سکتے ہیں، (۳) ان حضراتؑ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فلاں آدمی کے رزق کی مقدار، موت تک کتنی ہے جو اللہ تعالی نے مقدر کی ہے، (۴) اگر اس کریم گھرانہ کی فضیلت بیان کرنے سے حق ضائع ہوجائے تو یہ حضراتؑ اپنی طرف سے کمی پوری کرسکتے ہیں، پھر جب عطا کرتے ہیں تو نقصان کے برابر نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ عطا کرتے ہیں، (۵) ان پاک ہستیوں کے ایک کام کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں، جیسے اس واقعہ میں چالیس سال کے اخراجات عطا فرمائے، جس سے اس کی ضرورت بھی پوری ہوئی، اس کی حیات کی بھی نشاندہی ہوگئی اور یہ عطا، امام سجادؑ کے علم غیب کا واضح ثبوت بھی بن گیا۔ (۶) اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس علم بھی ہے (جیسے اس کی موت کے پیش نظر، مال عطا کیا)، طاقت بھی ہے (جس خزانے سے عطا کیا)، سخی اور صاحب احسان بھی ہیں (اس کی حالیہ ضرورت سے زیادہ اسے عطا کیا) لہذا ظالموں کے ظلم کے سامنے خاموش رہنا یا ظلم و ستم کو برداشت کرنا، عجز و ناتوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم اور مصلحت الٰہی کی وجہ سے ہے۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے اس خطبہ کے ہر فقرہ میں ایسے اہم اور گہرے نکات پائے جاتے ہیں جن کے ادراک کے لئے گہری سوچ اور وسیع نظر سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس خطبہ کے مذکورہ حصہ میں حضرتؑ نے اپنے اور اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں جو فضائل ارشاد فرمائے ہیں، ان میں سے اللہ کی جانب سے عطا ہونے والی چیزوں میں سے پہلے علم کا تذکرہ کیا ہے۔ واضح ہے کہ اس سے مراد عام علم نہیں ہے جو لوگوں کے پاس بھی ہے، بلکہ ایسا علم ہے جس تک لوگوں کی رسائی محال اور حصول ناممکن ہے،جیسا کہ قرآن کی رو سے اور احادیث کی روشنی میں جس کے پاس "علم الکتاب" ہے، وہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں۔ بنابریں اہل بیت (علیہم السلام) کو لاتعداد نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت جس سے اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے، علم کی نعمت ہے۔ امامؑ کے اس خطبہ سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کے پاس جو علم ہے وہ اللہ کی عطا ہے، نہ یہ کہ ان کا ذاتی علم ہو۔ اہل بیت (علیہم السلام) چونکہ اللہ کی توحید کے مخلوق میں پرچار کرنے والے ہیں تو ان پاک ہستیوں میں جتنے کمالات پائے جاتے ہیں، ان کا تعلق اللہ ہی سے ہے، تبھی تو وہ اللہ کی طرف ہدایت کرسکتے ہیں، ورنہ جس چیز کا تعلق اللہ سے نہ ہو، اس کے ذریعہ کیسے اللہ کی طرف راہنمائی کی جاسکتی ہے، لہذا ان کمالات اور فضائل کو شمار کرنے سے مقصود وہ مقامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اہل بیت (علیہم السلام) کو عطا فرمائے ہیں اور دوسرے لوگوں کو عطا نہیں کیے، اور چونکہ پروردگار نے صرف اہل بیت (علیہم السلام) کو عطا کیے ہیں تو یہی بات دلیل ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ نے دوسروں پر برتری اور فضیلت عطا کی ہے، بنابریں وہی زمین پر خلافت و حکومت کرنے کے لئے لائق ہیں اور انہی کے مبارک وجود پر خلافت کا لباس زیب دیتا ہے اور صرف انہی کی حکومت سے زمین زینت پاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سالار شہیدان، ص376۔
[2] بحارالانوار، ج۴۵، ص138۔
[3] شرح خطبہ امام سجاد (علیہ السلام)، تالیف احمد نورائی یگانہ قمی، ص182 بنقل از بحارالانوار، ج46، ص35۔
[4] شرح خطبہ امام سجاد (علیہ السلام)، ص183 بنقل از منتہی الآمال، ج2، ص36۔
Add new comment