محبت اہل بیت (علیہم السلام) ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: مومنین کے دلوں میں اہل بیت (علیہم السلام) اتنی اہم ہے جسے حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں اسے اللہ تعالی کی اہل بیت (علیہم السلام) کو عطا کردہ چیزوں میں سے شمار کیا ہے۔ نیز قرآن کی آیات اور دیگر بہت ساری روایات میں اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کا حکم دیا گیا ہے۔

محبت اہل بیت (علیہم السلام) ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ.  أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے"۔ اس مضمون میں ان چھ عطیات میں سے چھٹی صفت محبت اہل بیت (علیہم السلام) مومنین کے دلوں میں، کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
محبت اہل بیت (علیہم السلام) ایسی چیز ہے جس پراسلامی تعلیمات نے انتہائی تاکید کی ہے،  اس خطبہ میں امام سجاد (علیہ السلام) مومنین کے دلوں میں اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کو ان چیزوں میں سے شمار کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے اہل بیت (علیہم السلام) کو عطا فرمائی ہے۔ دیگر معصومین حضراتؑ نے بھی محبت اہل بیت (علیہم السلام) پر زور دیا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: "وَ لِكُلِّ شَىْء اَساسٌ واساسُ الاسلامِ حُبُّنا اَهلَ البيتِ "[2]، "ہر چیز کی ایک بنیاد ہے اور اسلام کی بنیاد ہم اہل بیتؑ کی محبت ہے"۔ یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کیوں اسلام کی بنیاد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا کام، انسان کا اللہ سے رابطہ کروانا ہے اور اللہ سے رابطہ کم سے کم دو اسباب کے ذریعہ سے ہوپاتا ہے: ایک معرفت اور پہچان، دوسرا عاطفہ اور جذبہ۔پہلے انسان کائنات کے خالق کی معرفت حاصل کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی منعم ہے کہ انسان کے پاس جتنی نعمتیں ہیں، سب اس کی طرف سے ہیں، دوسرے مرحلہ میں اس کے دل میں اس خالق اور منعم کی محبت پیدا ہونی چاہیے، اگر یہ معرفت اور یہ محبت انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تب انسان کا اللہ سے رابطہ پیدا ہونے کے لئے راستہ فراہم ہوتا ہے جو دین کا مقصد ہے۔ لیکن یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ اتنی ہی مقدار میں معرفت اور جذبہ، اللہ تعالی کی صحیح عبادت اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔تاریخ میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے خدا کو بھی پہچانا تھا اور اللہ کی محبت بھی ان کے دلوں میں تھی ، لیکن ان کے باطل اور غلط افکار، عقائد اور رسومات تھیں۔ قرآن کریم کی واضح آیات کے مطابق حتی بت پرست بھی خدا کی طرف توجہ کیا کرتے تھے اور خدا کی طرف تقرب پانے کے خواہشمند تھے، جہاں فرمایا: "مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ[3]"، "ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے"، نیز قرآن کریم کا ارشاد ہے: "وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ[4]"، "اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں"۔ ان آیات سے واضح ہورہا ہے کہ وہ اللہ کو جانتے ہیں اور چونکہ شفاعت اور قربت کے بھی طلبگار ہیں تو اللہ سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان کے باطل افکار یہ تھے کہ وہ قربت اور شفاعت کے لئے بتوں کو وسیلہ بناتے تھے، جبکہ اللہ تعالی نے بتوں کو نہ قربت کا وسیلہ قرار دیا ہے اور نہ شفاعت کی اجازت دی ہے۔ لہذا انسان کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ خدا کو پہچانتا ہو اور دل میں کچھ محبت بھی رکھتا ہو، بلکہ ضروری ہے کہ اس تقرب کے طریقہ اور ذریعہ کو بھی پہچانے، اسی لیے تو عقیدہ توحید کے بعد عقیدہ نبوت کی ضرورت ہے، یعنی اللہ تعالی نے انبیا٫ کو بھیجا تا کہ ان کے ذریعے سے اپنی طرف تقرب پانے کا صحیح طریقہ انسان کو سکھائے، لیکن صرف انبیا٫ ؑکے آنے سے ہی ہدایت کا مسئلہ مکمل نہیں ہوتا۔ کیونکہ کتنے ادیان اور مذہب پائے جاتے ہیں جو انبیا٫ ؑکی پیروی کے دعویدار ہیں، بلکہ کتنے فرقے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا دعوی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر ان کے درمیان تنافی اور اختلاف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ سب حق پر نہیں ہیں، بنابریں ہدایت کے مسئلہ کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی ہر پیغمبر کے بعد اس کے کچھ اوصیا٫ اور جانشین قرار دے جن کی طرف لوگ رجوع کرسکیں۔ اسلام میں بھی اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کچھ جانشین قرار دیئے ہیں جن کی بات اور کردار آنحضرتؐ کے بعد تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ یہیں سے واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت اسلام کی بنیاد ہے۔ قرآن کریم میں فرمان الہی کے ارشاد کے مطابق تبلیغ رسالت کا اجر، اہل بیت (علیہم السلام) سے مودت اور محبت ہے، مگر دیگر آیات کی روشنی میں جب اسے دیکھا جائے تو مزید کچھ معارف سامنے آتے ہیں۔ سورہ شوری میں فرمایا: "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ [5]"، " آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو "۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجر رسالت کے طور پر صرف ایک ہی چیز طلب کی ہے جو اہل بیت (علیہم السلام) کی مودت ہے۔ سورہ سبا میں اس اجر رسالت یعنی اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کے بارے میں فرمایا ہے: " قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ[6]"، "کہہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رہا ہوں وہ بھی تمہارے ہی لئے ہے میرا حقیقی اجر تو پروردگار کے ذمہ ہے اور وہ ہر شے کا گواہ ہے"۔ لہذا معلوم ہوگیا کہ اس اجر کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لیے ضرورت نہیں ہے، بلکہ امت کو اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کرنے کی ضرورت ہے۔ سورہ فرقان میں فرمایا: " قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاءَ أَن يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا [7]"، " آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے"۔اجر رسالت سے متعلق ان تین آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اجر رسالت، اہل بیت (علیہم السلام) سے مودت اور محبت ہے اور یہ محبت بھی لوگوں کے لئے ہی ہے نہ یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنی رسالت کے اجر کے طور پر طلب کررہے ہوں، کیونکہ فرمایا میرا اجر صرف اللہ کے ذمہ ہے، اور یہ محبت اہل بیت (علیہم السلام) اللہ کا راستہ ہے۔ ہماری ان حضراتؑ سے محبت در حقیقت ہماری اللہ تعالی سے محبت ہے اور جوہمیں اللہ سے محبت ہے اسی کی وجہ سے اہل بیت (علیہم السلام) سے ہمیں محبت ہے اور ہمیں جو اللہ تعالی کی معرفت اور محبت ہے وہ باعث بنی ہے کہ ان حضراتؑ سے ہمیں محبت اور معرفت ہوجائے۔ اگر ہم اللہ تعالی کی معرفت اور محبت کو صحیح طرح سے اپنے دلوں میں باقی رکھنا چاہیں اور اسے دنیا میں اپنی زندگی کا چراغ قرار دینا چاہیں جو ہماری نجات اور سعادت کا باعث بنے تو اس معرفت اور محبت الہی کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی کا اپنی لاریب کتاب میں ارشاد ہے: "قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[8]"، "اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کے دعوے میں سچے ہیں تو اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اور فرمانبرداری کرنا پڑے گی اور آنحضرتؐ کی انتہائی فرمانبرداری، آنحضرتؐ کی اہل بیت (علیہم السلام) کی فرمانبرداری ہے، جن کی محبت کا رسالت کے اجر کے طور پر قرآن میں حکم دیا گیا ہے اور حدیث ثقلین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن اور ان حضراتؑ کے دامن کوتھامنے کا حکم دیا ہے۔
نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کا حکم قرآن کریم اور معصومین (علیہم السلام) کی احادیث میں دیا گیا ہے اور اس پر انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کا مذکورہ روایت کے مطابق، اسلام میں بنیادی کردار ہے۔ مذکورہ آیات کے پیش نظر اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت ہی اجر رسالت ہے، اور یہ محبت لوگوں کے لئے ہی قرار دی گئی ہے جو اللہ کی طرف ہدایت پانے کا راستہ ہے۔ لہذا اگر انسان اللہ کی طرف ہدایت پانا چاہے تو اسے اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کرنا چاہیے۔ مومنین کے دلوں میں یہ محبت اتنی اہم ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے اس کو ان چیزوں میں سے شمار کیا ہے جو اللہ تعالی نے اہل بیت (علیہم السلام) کو عطا فرمائی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔
[2] تحف العقول، ص52 . ميزان الحكمه ، محمد محمدی ری شهری، ج5، ص372۔
[3] سورہ زمر، آیت 3۔
[4] سورہ يونس، آیت 18۔
[5] سورہ شوری، آیت 23۔
[6] سورہ سبا، آیت 47۔
[7] سورہ فرقان، آیت 57۔
[8] سورہ آل عمران، آیت 31۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22