دو معصوموں کی شجاعت، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: جیسا کہ سابقہ مضامین میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کا وہ خطبہ جو آپؑ نے شام میں ارشاد فرمایا اور اس میں اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی چیزوں اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا، ان عطا ہونے والی چھ چیزوں میں سے پانچویں شجاعت ہے، اس مضمون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شجاعت پر گفتگو کی جارہی ہے۔

دو معصوموں کی شجاعت، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ.  أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے"۔ اس مضمون میں ان چھ عطیات میں سے پانچویں صفت شجاعت کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
شجاعت کے معنی: مشکلات سے سامنا کرتے وقت، دل کی طاقت کا حامل ہونا شجاعت ہے[2]، شجاعت لغت کے لحاظ سے جنگ میں قلبی طاقت، بہادری اور جرائت مند ہونا ہے۔[3] اخلاقیات کے علما٫ نے شجاعت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ شجاعت انسان کے قوت غضب کی عقل سے فرمانبرداری ہے عظیم کاموں کے لئے قدم اٹھاتے ہوئے، اور عقل کی خواہشات کو پورا کرنے میں پریشان نہ ہونا۔[4]
شجاعت روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الشَّجاعَةُ صَبرُ ساعَةٍ[5]"، "شجاعت ایک گھڑی صبر کرنا ہے"۔ نیز آپؑ کا ہی ارشاد گرامی ہے کہ " لَو تَمَيَّزَتِ الأشياءُ لَكانَ الصِّدقُ مَع الشَّجاعَةِ ، و كانَ الجُبنُ مَع الكَذِبِ[6]"، "اگر چیزیں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتیں تو ضرور سچائی شجاعت کے ساتھ ہوتی اور بزدلی جھوٹ کے ساتھ"۔
شجاعت اور طاقت کا باہمی فرق: علامہ شہید مرتضی مطہری تحریر فرماتے ہیں کہ اخلاقیات کےعلما٫ کا کہنا ہے کہ شجاعت اور جسمانی طاقت میں فرق ہے۔ جسمانی طاقت کا تعلق جسمانی ڈھانچہ، جسم کے پٹھوں، اعضاء اور حصوں سے ہے، لیکن شجاعت ایسا نفسانی (روحانی) ملکہ اور طاقت ہے جس کا تعلق دل کی قوت اور ارادہ کی مضبوطی سے ہے کہ خوف کا لشکر روح پر غلبہ نہ پاجائے اور اشباح و اوہام نفس پر مسلط نہ ہوجائیں۔ دوسرے لفظوں میں شجاعت، ممکنہ خطروں کی لاپرواہی اور نفس کو میدانوں اور خطروں میں ڈالنا ہے۔[7]
اس مضمون میں اہل بیت (علیہم السلام) میں سے رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شجاعت کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شجاعت: پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کی تبلیغ میں خاص شجاعت کے حامل تھے۔ مشرکین نے آپؐ کے سامنے دین اسلام کی تبلیغ کے راستے میں جتنی مشکلات اور دشواریاں کانٹوں کی طرح بچھا دیں، آپؐ اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے، انتھک جدوجہد اور شجاعت کے ساتھ برداشت کرتے رہے، شکنجوں، اقتصادی پابندیاں، مشرکین کی گستاخیوں اور لالچ دلانے کے سامنے صبر و تحمل، شجاعت اور ثابت قدمی اختیار کرتے رہے۔آپؐ نے کتنی بدعتوں، من گھڑت توہمات اور بے بنیاد رسومات کی جڑیں اکھیڑ دیں اور جاہلیت کے ناپاک سماج کو اللہ تعالی کی عطا کردہ شجاعت کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ میں بدل دیا، جیسا کہ قومیت پرستی کے معیار کو توڑ دیا، منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی کی ممنوعیت کے باطل نظریہ کو منہدم کردیا، امیر طبقہ کی بیٹیوں کی ضعیف طبقہ سے شادی کی ممنوعیت کے غلط خیال کو مٹا دیا۔ نیز جنگی شجاعت کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو جس جنگ میں بھی آپؐ تشریف لے جاتے، مسلمانوں کے لئے مطمئن پشت پناہ ہوتے اور قلبی طاقت کی مضبوطی کا باعث تھے۔ حضرت امیرالمومنین حیدر کرار (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جب جنگ شدت پاجاتی اور تن بہ تن جنگ شروع ہوجاتی تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پناہ لیتے اور آنحضرتؑ کو اپنی ڈھال قرار دیتے اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی آنحضرتؐ سے زیادہ دشمن کے قریب نہیں ہوتا تھا۔[8]
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شجاعت: آپؑ کی شجاعت اور بہادری زبان زد عام و خاص ہے، جس پر آفتاب عالمتاب کی روشنی سے بڑھ کر ہر مومن و کافر اور دوست و دشمن کا متفق علیہ اقرار ہے،جنگ بدر، احد، خیبر، خندق، حنین، جمل، صفین اور نہروان اور دیگر جنگوں میں آپؑ ہی جنگ کے سب سے بڑے پہلوان، مجاہد اور جنگجو تھے اور مسلمان ہر جنگ میں آپؑ کے مرہون منت تھے، مرہب کی گردن اڑانے سے لے کر فتح مکہ کے بعد بت شکنی کرنے تک، بستر رسالت پر سوتے ہوئے جان رسالت بچانے سے لے کر جنگ احد میں تیروں کی برسات میں دوڑ دوڑ کر طواف رسالت کرتے ہوئے جان رسالت کو بچانے تک، شعب ابی طالبؑ میں بستر بدل بدل کر جان پیغمبرؐ کو بچانے سے لے کر، لیلۃ المبیت کو بستر رسولؐ پر سوتے ہوئے، بیت رسالت کے اردگرد چالیس مشرکوں کی جھرمٹ میں اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے ہوئے پروردگار کی بارگاہ قدسی میں پیش کرکے رضائے الہی کو خرید کر پیغمبرؐ کی جان بچا کر اسلام کی بنیاد کو قائم کرنے تک اور اندھیری رات میں جان پیغمبرؐ بچا کر مباہلہ کی صبح روشن میں نفس رسولؐ اور جان پیغمبرؐ کہلانے تک رہتی دنیا اس حیدر کرارؑ کی شجاعت کی مرہون منت ہے  جس کی شجاعتوں کی ایک جھلک وہ تھی جس کے نمودار ہونے پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذن الہی سے اعلان کردیا کہ آپؑ کی جنگ خندق میں ایک ضربت، جن و انس کی عبادتوں سے افضل ہے۔ نیز آپؑ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا ، اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے غم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے ۔ خدا کی قسم ! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورتِ حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے ۔ یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہو گیا۔ میں نے (اس کام میں) نہ کمزوری دکھا ئی نہ بزدلی سے کام لیا۔ اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کے لئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لُوں۔ مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے۔  خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی ، جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ورغلانے میں آ چکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مدّ ِ مقابل رہ چکا ہوں، ویسا ہی آج ثابت ہوں گا۔"[9]
نتیجہ: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے شام میں خطبہ دیتے ہوئے اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل میں سے ایک فضیلت جس کا تذکرہ کیا، اہل بیت (علیہم السلام) کی شجاعت تھی۔شجاعت صرف میدان جنگ میں دکھائی نہیں دیتی بلکہ مختلف اوقات اور مختلف طرح کی جنگوں میں (جیسے میدان جنگ اور ہوائے نفس سے جنگ) میں مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی شجاعتوں کے کارنامہ ہر دور میں مختلف صورتوں میں منظرعام پر آتے رہے، یہاں تک کہ ان حضراتؑ کی شجاعت پر مومن و کافر اعتراف کرتے رہے ہیں۔اہل بیت (علیہم السلام) نے ان تمام نعمتوں کو جو اللہ تعالی نے ان حضراتؑ کو عطا فرمائی ہیں، اللہ کی راہ میں استعمال کرتے رہے اور شجاعت کی نعمت کو بھی اللہ کے دین کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہوئے دین اسلام کو فروغ دیا اور مسلمانوں کو سرفراز کرکے دیگر ادیان کے پیروکاروں پر برتری دیدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔
[2] ابن مظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، تیسری طبع، 1414 ق، ج8، ص173.
[3] طریحی، مجمع البحرين، ج 1، ص 485۔
[4] محمدمهدی نراقی، جامع السعادات، ج 1، ص 244.
[5] میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شہری، ج5، ص485۔
[6] میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شہری، ج5، ص484۔
[7] یادداشت‌های استاد مطهری، ج13، صفحہ ذکر نہیں ہوا، لہذا براہ راست حوالہ کے لئے دیکھیے: http://khabarfarsi.com/ext/12686574
[8] بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوه، تحقیق عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دارالکتب العلمیه، 1405ق، پہلی طبع، ج3 ص69-70 و طبری، محمد بن جریر، ج2 ص426.
[9] نہج البلاغہ، خطبہ 33، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67