عظمت رسول اللہ (ص) ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم اہل بیت (علیہم السلام) کو سات چیزوں کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے، ان میں سے پہلی چیز جس کا آپؑ نے تذکرہ فرمایا یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اہل بیت (علیہم السلام) سے ہیں۔

عظمت رسول اللہ (ص) ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا: "أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلى الله عليه و آله[1]"، "اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے ...، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں"۔
یزیدیوں نے لوگوں سے کہا ہوا تھا کہ یہ قیدی خارجی ہیں، لیکن حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں لوگوں کے لئے واضح کردیا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں، وہ ہم سے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل دیگر معصومین (علیہم السلام) سے بھی نقل ہوئے ہیں، مگر اختصار کی بنا پر اس مضمون میں حضرت سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل اور عظیم مقام کے ضوپاش آفتاب اور شمس رسالت میں سے کچھ کرنوں کا صرف قرآن کریم، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کی زبانی تذکرہ کرتے ہیں:
قرآن کی روشنی میں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقدس وجود انسانی اور اخلاقی اقدار سے لبریز تھا، لہذا قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آپؐ سے فرمایا ہے: "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"[2]، "اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں"، جو شخصیت، اخلاق کے بلندترین درجہ پر فائز ہو یقیناً وہی نمونہ عمل بننے کے لائق ہے، لہذا قرآن کریم نے فرمایا: "لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيراً"[3]، "مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے"۔ بنابریں آٓنحضرتؐ جو بلندترین اخلاق کے درجہ پر ہیں، اس کے لئے زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہیں جو اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین کی زبانی (نہج البلاغہ): ...یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لئے محمد(ص) کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے. کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے خدا وندِ عالم نے آپ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا. پھر اللہ سبحانہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو اپنے لقاؤ قرب کے لئے چنا، اپنے خاص انعامات آپ کے لئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے باعزت آپ کو اٹھا لیا. حضرت تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے، جو انبیاء اپنی امتوں میں چھوڑتے جاتے آئے تھے. اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے. پیغمبر علیھ السّلام نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے. اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام ، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ رخص و عزائم، خاص و عام، عبرو امثال ، مقید و مطلق ، محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا. مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی. اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔[4]
حضرت زین العابدین (علیہ السلام) کی زبانی (صحیفہ سجادیہ): امام سجاد(علیہ السلام) جیسے اس خطبہ میں آنحضرتؐ سے اہل بیت (علیہم السلام) کو منسوب کرتے ہوئے، اہل بیت (علیہم السلام) کی شان و عظمت بیان فرمارہے ہیں، اسی طرح آپؑ صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعا میں آنحضرتؐ کی عظمت بیان فرماتے ہیں: "وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی مَنَّ عَلیْنَا بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ دُونَ الْأُمَمِ الْمَاضِیَةِ وَ الْقُرُونِ السَّالِفَةِ..."، " تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے ہم پر وہ احسان فرمایا جو نہ گذشتہ امتوں پر کیا اور نہ پہلے لوگوں پر۔ اپنی قدرت کی کار فرمائی سے جو کسی شے سے عاجز و درماندہ نہیں ہوتی اگرچہ وہ کتنی ہی بڑی ہو اور کوئی چیز اس کے قبضہ سے نکلنے نہیں پاتی اگرچہ وہ کتنی ہی لطیف ونازک ہو اس نے اپنے مخلوقات میں ہمیں آخری امت قرار دیا اورانکار کرنے والوں پر گواہ بنایا ۔ اوراپنے لطف وکرم سے کم تعداد والوں کے مقابلہ میں ہمیں کثرت دی۔ اے اللہ ! تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر جو تیری وحی کے امانتدار تمام مخلوقات میں تیرے برگزیدہ ، تیرے بندوں میں پسندیدہ رحمت کے پیشوا ، خیر وسعادت کے پیشتر وبرکت کا سرچشمہ تھے جس طرح انہوں نے تیری شریعت کی خاطر اپنے کو مضبوطی سے جمایا اورتیری راہ میں اپنے جسم کو ہر طرح کے آزار کا نشانہ بنایا اورتیری طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں اپنے عزیروں سے دشمنی کا مظاہرہ کیا،اورتیری رضا کے لیے اپنے قوم قبیلے سے جنگ کی اورتیرے دین کو زندہ کرنے کے لیے سب رشتے ناطے قطع کر لئے ۔ نزدیک کے رشتہ داروں کو انکار کی وجہ سے دور کردیا اوردور والوں کو اقرار کی وجہ سے قریب کیا۔ اورتیری وجہ سے دور والوں سے دوستی اورنزدیک والوں سے دشمنی رکھی اور تیرا پیغام پہنچانے کے لیے تکلیفیں اٹھائیں اوردین کی طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں زحمتیں برداشت کیں اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے پند ونصیحت کرنے میں مصروف رکھا جنہوں نے تیری دعوت کو قبول کیا ۔ اوراپنے محل سکونت ومقام رہائش اورجائے ولادت ووطن مالوف سے پردیس کی سرزمین اوردور ودراز مقام کی طرف محض اس مقصد سے ہجرت کی کہ تیرے دین کو مضبوط کریں اور تجھ سے کفر اختیار کرنے والوں پر غلبہ پائیں یہاں تک کہ تیرے دشمنوں کے بارے میں جو انہو ں نے چاہا تھا وہ مکمل ہو گیا اورتیرے دوستوں (کو جنگ و جہاد پر آمادہ کرنے ) کی تدبیریں کامل ہو گئیں تو وہ تیری نصرت سے فتح وکامرانی چاہتے ہوئے اوراپنی کمزوری کے باوجود تیری مدد کی پشت پناہی پر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے گھروں کے حدود میں ان سے لڑے یہاں تک کہ ان گھروں کے وسط میں ان پر ٹوٹ پڑے ۔ یہاں تک کہ تیرا دین غالب اورتیرا کلمہ بلند ہو کر رہا۔ اگرچہ مشرک اسے ناپسند کرتے رہے ۔ اے اللہ انہو ں نے تیری خاطر جو کوششیں کی ہیں ان کے عوض انہیں جنت میں ایسا بلند درجہ عطا کر کہ کوئی مرتبہ میں ان کے برابر نہ ہو سکے اور نہ منزلت میں ان کا ہم پایہ قرار پا سکے اورنہ کوئی مقرب بارگاہ فرشتہ اورنہ کوئی فرستادہ پیغمبرتیرے نزدیک ان کا ہمسر ہو سکے اوران کے اہل بیت اطہار اورمومنین کی جماعت کے بارے میں جس قابل قبول شفاعت کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اس وعدہ سے بڑھ کر انہیں عطا فرما۔ اے وعدہ کے نافذ کرنے والے، قول کے پورا کرنے اوربرائیوں کو کئی گنا زائد اچھائیوں سے بدل دینے والے بے شک تو فضل عظیم کا مالک ہے"۔[5]
نتیجہ: پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اتنے عظیم الشان مقامات کے حامل ہیں، کیوں نہ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) اس بات کو باعث فضیلت سمجھیں کہ پیغمبرؐ ہم اہل بیت (علیہم السلام) میں سے ہیں۔ کیا کوئی اور خاندان ہے جس میں اتنی بلند مقام شخصیت پائی جاتی ہو؟! تو جس خاندان میں اتنے کمالات کے حامل اور خاتم النبیین اور سیدالمرسلین کا مقدس وجود پایا جاتا ہو، کیا اس خاندان پر ظلم اور ان کی حرمت کو پامال کرنا چاہیے؟!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ری شہری، ج1، ص1132، بنقل از مقتل خوارزمی، ج2، ص69۔
[2] سورہ قلم، آیت4۔
[3] سورہ احزاب، آیت21۔
[4] نہج البلاغہ، خطبہ2، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ
[5] صحیفہ سجادیہ، دعا2، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45