خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں جو خطبہ دیا اس کے ایک فقرے میں فرمایا: صدیق ہم میں سے ہے، آیات اور روایات کی روشنی میں ثابت کیا جارہا ہے کہ صدیق حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا: "أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا… وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ[1]"، "اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے ...، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں"۔
صدیق کے لغوی معنی: راغب کا کہنا ہے کہ "صدیق" یعنی بہت سچ بولنے والا[2]، اور طریحی نے "صدیق" کے لئے تین معانی ذکر کیے ہیں: ۱۔ جو بالکل جھوٹ نہیں بولتا۔ ۲۔ جو مسلسل حق بات کی تصدیق کرتا ہے۔ ۳۔ جسے سچائی کی عادت ہے۔[3]، ابن منظور نے بھی "صدیق" کے لئے تقریباً یہی معانی ذکر کیے ہیں[4] اور صحاح جوہری میں بھی "صدیق" کے معنی "دائم التصدیق" بیان ہوئے ہیں۔[5] لہذا "صدیق" وہ شخص ہے جس میں ہرگز جھوٹ کا امکان نہیں ہے اور جس کام کے حق ہونے کو نہ جانتا ہو، اسے نہیں کرتا، اگرچہ اس کی ہوائے نفس کے مطابق ہو اور جس بات کے سچ ہونے کو نہیں جانتا، اسے بیان نہیں کرتا اور نتیجتاً حتی سوائے حق کو دیکھتا بھی نہیں، بنابریں وہ ایسا شخص ہے جو چیزوں کے حقائق کو دیکھتا ہے اور حق بولتا ہے اور حق کام انجام دیتا ہے۔[6]
صدیق قرآن کریم کی روشنی میں: قرآن کریم میں صدیق مفرد کی صورت میں چار بار اور جمع کی صورت میں دو بار ذکر ہوا ہے: حضرت ابراہیم[7]، حضرت یوسفؑ[8]، حضرت ادریسؑ[9] اور حضرت مریمؑ[10]۔ صدیق اپنی مشتقات کے ساتھ منجملہ مندرجہ ذیل آیات میں ذکر ہوا ہے: "وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا"[11]، " اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیا٫، صدیقین, شہدا٫ اور صالحین اور یہی بہترین رفقا٫ ہیں"۔ اس آیت سے چند نکات واضح ہوتے ہیں: ۱۔ جملہ "وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ" سے سمجھ میں آتا ہے کہ صدیق وہ ہے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، لہذا یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ اطاعت واجب ہے[12]۔ ۲۔ جملہ "فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم" سے واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ "الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم" یعنی انبیا٫، صدیقین، شہدا٫ اور صالحین سے ملحق ہیں اور ان میں سے نہیں ہیں۔ ۳۔ جملہ "أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم" میں مذکورہ نعمت سے مراد نعمت ولایت ہے۔[13] مندرجہ ذیل آیت کریمہ بھی صدیقین کے بارے میں ہے: "وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ[14]"، "اور جو لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لائے وہی خدا کے نزدیک صدیق اور شہید کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی کے لئے ان کا اجر اور نور ہے"۔ فخررازی کا کہنا ہے کہ اس آیت میں صدیقون اور شہدا٫ سے مراد وہی ہیں جن کا تذکرہ سورہ نسا٫ کی آیت ۶۹ میں ہوا ہے۔ "صدیق" وہ ہے جس کی بات اور کردار میں سچائی کا ملکہ (باطنی قوت) سرایت کرچکا ہو لہذا جو کچھ کہتا ہے اسے انجام دیتا ہے اور جو انجام دیتا ہے اسے زبان پر لاتا ہے۔[15] قرآن کریم نے صادقین اور سچوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے، جہاں فرمایا: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ"[16]، " اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ"۔ علامہ اہلسنت زمخشری کا کہنا ہے: "هم الّذين صدقوا فى دين اللَّه نية و قولا و عملا"[17] "صادقین" وہ ہیں جو اللہ کے دین میں عقیدہ، بات اور عمل کے لحاظ سے سچے ہوں۔
صادقین، صدّیقین اور صدّیق روایات کی روشنی میں:شیعہ اور اہلسنت کی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ صادقین سے مراد حضرت علی (علیہ السلام) یا حضرت علی (علیہ السلام) اور آپؑ کے اصحاب یا حضرت علی (علیہ السلام) اور آپؑ کی اہل بیتؑ ہیں[18]، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی اہل بیتؑ ہیں[19]۔ برید کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے اللہ عزوجل کے اس فرمان " اتَّقُوا اللَّهَ وَ کونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ " کے بارے میں دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا: " مراد ہم ہیں"۔[20] سورہ نسا٫ کی آیت ۶۹ کے سلسلہ میں علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ النبیین سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، صدیقین سے مراد حضرت علی (علیہ السلام)، شہدا٫ سے مراد امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) ہیں اور صالحین سے مراد ائمہ اطہار (علیہم السلام) ہیں اور "وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا" سے مراد قائم آل محمد (علیہ السلام) ہیں۔[21] اہلسنت کے علامہ، حاکم حسکانی نے اپنی تفسیر میں "صدیقین" کے بارے میں ایک حدیث کو پانچ طریق سے نقل کیا ہے، اپنی اسناد کے ساتھ عبدالرحمن ابن ابی لیلی سے کہ اس نے کہا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: " الصِّدِّيقُونَ ثلاثةٌ : حَبيبٌ النَّجّارُ مُؤمِنُ آلِ ياسِينَ الذي يقولُ» : اتَّبِعُوا المُرْسَلِينَ * اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسألُكُمْ أجْرا وَ هُمْ مُهْتَدُونَ «و حِزقيلُ مُؤمِنُ آلِ فِرعَونَ، و عليُّ بنُ أبي طالبٍ و هُو أفضَلُهُم[22]"،"صدیقوں (سچے) تین افراد ہیں: حبیب النجار مومن آل یاسین جس نے کہا: مرسلین کا اتباع کرو، ان کا اتباع کرو جو تم سے کسی طرح کی اجرت کا سوال نہیں کرتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں، اور حزقیل مومن آل فرعون، علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) جو اُن سے افضل ہیں۔نیز حاکم حسکانی نے سورہ نسا٫ کی آیت ۶۹ میں "صدیقین" سے مراد حضرت امام علی (علیہ السلام) کو بیان کیا ہے۔ شیخ صدوق ؒ نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:" لکلّ امّة صدّیق و فاروق، و صدّیق هذه الامة و فاروقها علی بن ابی طالب,[23]" "ہر امت کا کوئی صدیق اور فاروق ہے اور اس امت کے صدیق اور فاروق علی ابن ابی طالب ہیں"۔ خود حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: "إنی النبأ العظیم، والصدیق الأکبر[24]"، "بیشک میں عظیم خبر اور صدیق اکبر ہوں"۔ نیز اہلسنت کے علما٫ نسائی، متقی ہندی اور حاکم نیشابوری نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا: " انا عبدالله و اخو رسوله و انا الصدّیق الاکبر لا یقولها بعدی الا کاذب مفتر [25]"، "میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد کوئی شخص یہ بات نہیں کرے گا مگر یہ کہ جھوٹا اور الزام لگانے والا ہوگا۔ کئی علمائے اہلسنت منجملہ طبرانی نے جناب ابوذر اور سلمان سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:"إنَّ هذا أوَّلُ مَن آمَنَ بی، وهُوَ أوَّلُ مَن یصافِحُنی یومَ القِیامَةِ، وهذَا الصِّدِّیقُ الأَکبَرُ، وهذا فاروقُ هذِهِ الامَّةِ یفَرِّقُ بَینَ الحَقِّ وَالباطِلِ [26]"، "یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور پہلا شخص ہے جو قیامت کے دن مجھ سے ہاتھ ملائے گا، اور یہ صدیق اکبر ہے، اور یہ اس امت کا فاروق ہے جو حق و باطل کو جدا کرے گا"۔
نتیجہ: صدیق وہ ہے جو نیت، بات اور کردار کے لحاظ سے سچا ہو اور اس کا عمل اس کی بات کی تصدیق کرے اور ہرگز جھوٹ نہ بولے۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) وہ عظیم شخصیت ہیں جن کا عمل ان کی بات اور نیت کی تصدیق کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے اور ایسے سچے ہیں جن کی شان میں وہ آیات نازل ہوئیں جن میں صدیقین، صدیقون اور صادقین کے الفاظ کا تذکرہ ہوا ہے۔ نیز روایات کی روشنی میں بھی آپؑ ہی صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہیں جن میں سے بعض روایات کو اہلسنت کے علما٫ نے نقل کرتے ہوئے آپؑ کو ہی صدیق سمجھا ہے۔ اسی لقب کی بنیاد پر حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا صدیق کے لفظ سے تعارف کروایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ری شہری، ج1، ص11322، بنقل از مقتل خوارزمی، ج2، ص69۔
[2] راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، درالعلم دار الشامیه، دمشق، بیروت، 1412 ق. ج 1، ص 479۔
3]طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، کتاب فروشی مرتضوی، تهران، 1375 ق، ج 5، ص 199.
[4] ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، دار صادر، بیروت، 1414ق، ج 10، ص 194.
[5] جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، دارالعلم الملایین، بیروت، ج 4، ص 1508.[6] طباطبائی، محمدحسین، المیزان، ج 4، ص 252.
[7] سوره مریم ، آیت 41۔
[8] سوره یوسف، آیت 46۔
[9] سوره مریم، آیت 56۔
[10] سوره مائده ، آیت 75۔
[11] سورہ نسا٫، آیت 69۔
[12] علامه طباطبائی، تفسیر المیزان، ج 4، ص 651۔
[13] علامه طباطبائی، تفسیر المیزان، ج 4، ص 651۔
[14] سورہ حدید، آیت19۔
[15] فخر رازی، ابوعبدالله، مفاتیح الغیب، ج 29، ص 462.
[16] سورہ توبہ، آیت 199۔
[17] الکشاف ، ج2 ، ص 320۔
[18] سیوطی، الدرّ المنثور، ج4، ص287؛ آمدی، غایة المرام، ج2، ص50 ـ 51؛ امینی، الغدیر، ج2، ص306.
[19] حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ج1، ص262.
[21] تفسیر قمی، ج 1، ص 142۔
[22] بحار الأنوار : 38/212/14، تھوڑے سے فرق کے ساتھ: حسکانی، عبیدالله ابن احمد، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، ج 2، ص 304 ـ 303
[23] عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 13، حدیث 30۔
[24] کافی،ج 8، ص 30۔
[25] نسائی، سنن، ج5، ص107 کنزالعمال، ج13، ص122؛ حاکم نیشابوری، ج3، ص112۔
[26] المعجم الکبیر، ج 6، ص 269، ح 6184؛ تاریخ مدینة دمشق، ج 42، ص 41، ح 8368؛ شرح نهج البلاغة، ج 13، ص 228۔
Add new comment