خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے جو شام میں خطبہ دیا، اس میں حضرت امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) کی دو صفات کا تذکرہ فرمایا: ۱۔ امت کے دو سبط ۲۔ جنت کے جوانوں کے سردار۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا… وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ ومِنّا سَيِّدَةُ نِساءِ العالَمينَ فاطِمَةُ البَتولُ ، ومِنّا سِبطا هذِهِ الاُمَّةِ ، وسَيِّدا شَبابِ أهلِ الجَنَّةِ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے ...، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں اور طیارؑ اور اللہ کا شیر اور اس کے رسول کا شیر (حمزہؑ) ہم میں سے ہیں اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ بتولؑ ہم میں سے ہیں اور اس امت کے دو سبط اور جنت کے جوانوں کے دو سردار ہم میں سے ہیں"۔
اس مضمون میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کے اس فقرے کی تشریح کی جارہی ہے جس میں آپؑ نے امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) کے مقامات میں سے دو مقام بیان فرمائے: ۱۔ اس امت کے دو سبط۔ ۲۔ جنت کے جوانوں کے سردار۔
حسنین شریفین (علیہماالسلام) امت کے دو سبط: سبط، بیٹے کے بیٹے کو کہا جاتا ہے، مفردات، صحاح، قاموس اور اقرب نے اسے ولد الولد کہا ہے... سبط کا جمع اسباط ہے اور یہ لفظ قرآن مجید میں پانچ بار آیا ہے اور سب بنی اسرائیل کے بارے میں ہے... واضح رہے کہ قرآن کی آیات میں اسباط سے مراد یا وہ جماعتیں ہیں جو حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں میں سے پیدا ہوئے یا وہ خاص افراد ہیں جو ہر ایک سبط اور ولدالولد تھے، کیونکہ سبط کے معنی پوتے اور جماعت کے ذکر ہوئے ہیں۔[2] مجمع البحرین میں سبط کے معنی میں روایت نقل ہوئی ہے: "الحُسَیْنُ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاطِ"ای الامۃ من الامم[3]، حسین (علیہ السلام) اسباط میں سے ایک سبط ہیں، یعنی امتوں میں سے ایک امت ہیں۔ نیز سبط کے یہ معنی مرآۃ العقول[4] میں بھی بیان ہوا ہے۔
کتاب شرح خطبہ امام سجاد (علیہ السلام) میں "سِبطا هذِهِ الاُمَّةِ" کی یوں وضاحت کی گئی ہے: "لہذا سبط ہمیشہ بیٹے یا پوتے کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، اگر سبط، رسول اللہ کی طرف اضافہ ہو تو مراد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے ہیں ورنہ امت کے معنی میں ہے جیسا کہ اس خطبہ میں لفظ امت کی طرف اضافہ ہوا ہے (سبطا ھذہ الامۃ) شاید اس طرح تشریح کی جاسکے: حسن و حسین (علیہماالسلام) اس امت کے دو سبط ہیں، اس بات کے مدنظر کہ سبط بھی امت کے معنی میں ہے، اگر حسن اور حسین (علیہماالسلام) نہ ہوتے تو بالکل امت ہی نہ ہوتی، یا بہتر ہے کہ کہا جائے کہ امت کا وجود، امام کے وجود پر قائم ہے، اگر امام نہ ہو تو امت ہی نہیں ہے، لہذا جاہلیت کے دور کے لوگوں کو ہرگز امت نہیں کہا گیا کیونکہ ان کا کوئی امام نہیں تھا اور معرفت امام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: "مَن ماتَ و لَمْ يَعْرِفْ امامَ زَمانِهِ ماتَ مِيتَةَ الجاهِلِيَةِ"[5]، "جو مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ زمانہ جاہلیت کی موت مرا ہے"۔ لہذا اگر حسن و حسین (علیہماالسلام) نہ ہوتے تو امت ہی نہ ہوتی"۔[6]
امام سجاد (علیہ السلام) کے اس ارشاد کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی روایت ہے: "ومن علي سبطا امتي و سيدا شباب أهل الجنة: الحسن والحسين"[7]، "اور علیؑ سے میری امت کے دو سبط اور جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں: حسنؑ اور حسینؑ"
اہلسنت کی نظر میں حسنین شریفین (علیہماالسلام) کا سبط الامۃ ہونا: علامہ اہلسنت متقی ہندی نے اپنی مشہور کتاب میں تحریر کیا ہے: "ولكل أمة سبط وسبط هذه الأمة الحسن والحسين"[8]، "اور ہر امت کا کوئی سبط ہے اور اس امت کے سبط، حسن اور حسین ہیں"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے فرمایا: "ومنا سبطا ھذه الأمة الحسن والحسين وھما ابناك"[9]، "اور ہم میں سے ہیں اس امت کے دو سبط حسن اور حسین اور وہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں"۔
علامہ اہلسنت ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے فرمایا: "و منّا سبطا ھذہ الامۃ، و ھما ابناک الحسن و الحسین وھما سیّدا شباب اھل الجنۃ، و ابوھما والذی بعثنی بالحق خیر منھما"[10]، "اور ہم میں سے ہیں اس امت کے دو سبط اور وہ آپؑ کے دو بیٹے حسن و حسین ہیں اور وہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان دونوں کا باپ، مجھے قسم اس ذات کی جس نے مجھے برحق مبعوث کیا، ان دونوں سے بہتر ہے"۔
حسنین شریفین (علیہماالسلام) سبط رسولؐ: نیز کتاب القاب الرسول و عترتہ کی نقل کے مطابق، حسنین شریفین (علیہماالسلام) کے درمیان یہ مشترکہ القاب ذکر ہوئے ہیں: "سبط رسول الله، ریحانۃ نبی الله، سید شباب اهل الجنه، قره عین البتول، عالم، مُلهَم الحق، و قائد الخلق"[11]۔ اصول لکافی میں ہے کہ "الحسن والحسين سبطي محمد صلى الله عليه وآله"[12]، "امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو سبط ہیں"۔ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے زیارتنامہ میں حسنین شریفین (علیہماالسلام) کو اس طرح سلام کیا جاتا ہے: "السَّلامُ عَلَيْكُمَا يَا سِبْطَيْ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ"[13]، سلام ہو آپ پر نبی رحمت کے اے دو سبط"۔ شب معراج جو اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی اس میں یہ بھی فرمایا: "يا محمد علي أمير المؤمنين ، وسيد المسلمين ، وقائد الغر المحجلين إلى جنات النعيم ، أبوالسبطين ، سيدَي شباب أهل جنتي"[14]، "اے محمدؐ! علیؑ، امیرالمومنین اور مسلمانوں کے سردار اور نورانی چہرے والوں کے جنات النعیم کی طرف راہنما اور ان دو سبط کے باپ ہیں جو میری جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"۔
حسنین شریفین (علیہماالسلام) جنت کے جوانوں کے سردار: ان حضراتؑ کے بارے میں دوسری صفت جو حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں بیان فرمائی ہے، "سَيِّدا شَبابِ أهلِ الجَنَّةِ" ہے، یعنی جنت کے جوانوں کے سردار۔ بحارالانوار میں علامہ مجلسیؒ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ "أهل الجنة شباب كلهم"[15]، "سب جنتی جوان ہوں گے" اور ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ابناى هذان سيدا شباب أهل الجنة وأبوهما خير منهما"[16]، "میرے یہ دو بیٹے جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے باپ ان سے بہتر ہیں"، اس سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ جنت میں جتنے جنتی ہوں گے، ان سب کے سردار، حسنین شریفین (علیہماالسلام) ہوں گے۔ سیوطی نے روایت "الحسن والحسین سیّدا شباب اہل الجنّۃ" کو ۱۶ طرق سے نقل کیا ہے۔[17] ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ اسی روایت کو ابوسعید خُدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "الحسن والحسین...”[18] اور ابن حجر عسقلانی نے حذیفہ سے نقل کیا ہے۔[19] ابن ماجہ نے بھی اپنی سند کے ساتھ عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے: "الحسن والحسین سیّدا شباب اهل الجنّه، وابوهما خیرٌ منهما"۔[20] نیز احمد بن حنبل[21] اور حاکم نیشابوری[22] نے کچھ اضافہ کے ساتھ اس روایت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے خطبہ کے اس حصہ میں امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) کی ان دو عظیم صفات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ایک کا تعلق امت سے ہے کہ یہ حضراتؑ امت کے دو سبط ہیں اور دوسری کا تعلق جنتیوں سے ہے کہ یہ حضراتؑ جنت کےجوانوں کےسردار ہیں اور چونکہ جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا اور سب جوان ہوں گے تو واضح ہوتا ہے کہ حسنین شریفینؑ سب جنتیوں کے سردار ہیں۔ امت کے سبط اور تمام جنتیوں کے سرداروں کے تذکرہ سے شامیوں کے لئے اس بات کے واضح ہونے کے اسباب ہیں کہ جن افراد پر ہم نے ظلم کیا ہے اور ظالم حکومت وقت نے جن پر طرح طرح کے ستم کیے ہیں، وہ نہ باغی ہیں اور نہ خارجی، بلکہ وہی امت کے قائم رہنے کا باعث اور سب جنتیوں کے سردار ہیں، لہذا یہ قیدی حق پر ہیں اور یہ حکومت جھوٹ اور دھوکہ کی بنیاد پر ان قیدیوں پر ظلم و ستم کے کوہ گراں گراتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ری شہری، ج۱، ص۱۱۳۲، بنقل از مقتل خوارزمی، ج۲، ص۶۹۔
[2] قاموس قرآن، علی اکبر قرشی، ج۳، ص۲۱۹۔
[3] مجمع البحرین، ج۱، ص۳۲۶، مادہ س ب ط۔
[4] مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج۶، ص۲۱۲۔
[5] وسائل الشیعہ، ج۶، ص۴۹۲، ح۲۳، باب ۳۳ میں
[6] شرح خطبہ امام سجاد (علیہ السلام)، احمد نورائی یگانہ قمی، ص۲۶۶۔
[7] بحار الأنوار، ج۲۶، ص۳۴۲۔
[8] كنز العمال ج ٢ ص ٨٨۔
[9] مرقاة المفاتيح لعلىّ بن سلطان ج ٥ ص ٦٠٢، ذخائرالعقبی، محبت الدین طبری، ص۴۴۔
[10] تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۲، ص۱۳۰۔
[11] قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، القاب الرسول و عترته، ص۵۲.
[12] الکافی، ج۱، ص۵۱۶۔
[13] مفاتیح الجنان۔
[14] بحار الأنوار، ج18، ص۳۹۷۔
[15] بحار الأنوار، ج۴۲، ص۲۹۲۔
[16] بحار الأنوار، ج۴۲، ص۲۹۲۔
[17] سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، الاخبار المتواتره، ص۲۸۶۔
[18] ترمذی، محمد بن عیسی، صحیح ترمذی، ۵ج، ص۶۶۰۔
[19] ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۲، ص۶۳۔
[20] ابن ماجه قزوینی، محمد بن یزید، سنن ابن ماجه، ج۱، ص۴۴۔
[21] مسند احمد، ج۲، ص۳۴۳۔
[22] المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۴۲۹۔
Add new comment