خلاصہ: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے شام میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں سے چوتھی چیز جو اہل بیت (علیہم السلام) اور آپؑ کو اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے وہ فصاحت ہے، جس کا آپؑ نے تذکرہ فرمایا، اس مضمون میں اہل بیت (علیہم السلام) اور امام سجاد (علیہ السلام) کی فصاحت کے سلسلہ میں تشریح کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ. أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت، عطا ہوئی ہے"۔
اس مضمون میں ان چھ عطاؤں میں سے چوتھی صفت فصاحت کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
فَصاحت، لغت میں واضح طور پر بات کرنے کو کہاجاتا ہے۔ فَصاحت حروف کو صحیح ادا کرنا، بولنے والا اپنے مقصود کو بغیر مبہم الفاظ میں بیان کرے۔
دوسرے لفظوں میں فصاحت کا مطلب یہ ہے کہ اچھا بولنا، مجاز، کنایہ، لطائف اور مثالوں کو استعمال کرنا ہے اور بلاغت اچھی بات کرنا، بجا بات کرنا، بے فائدہ بات کو طویل کرنے سے پرہیز کرنا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) اپنے اس خطبہ میں فصاحت کو اللہ کی عطاکردہ چیزوں میں سے شمار کررہے ہیں، آپؑ کے اس دعوی کی دلیل آپؑ کا یہی خطبہ ہے، جو فصاحت و بلاغت سے چھلک رہا ہے۔ نیز واضح رہے کہ حضرتؑ نے تمام اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے فصاحت کی صفت بیان کی ہے، لہذا تمام اہل بیت (علیہم السلام) کے کلام میں فصاحت کے گوہر پائے جاتے تھے، جیسا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: "أَلَا إِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِنَ الْإِنْسَانِ فَلَا يُسْعِدُهُ الْقَوْلُ إِذَا امْتَنَعَ وَ لَا يُمْهِلُهُ النُّطْقُ إِذَا اتَّسَعَ وَ إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْكَلَامِ وَ فِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُهُ وَ عَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُهُ[2]"، " یاد رکھو کہ زبان انسانی وجود کا ایک ٹکڑا ہے، لہٰذا جب انسان رک جاتا ہے تو زبان ساتھ نہیں دے سکتی ہے،اور جب انسان کے ذہن میں کشادگی ہوتی ہے تو زبان کو رکنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ ہم اہل بیت جو اقلیم سخن کے حکام ہیں،ہمارے ہی اندر بیان کی جڑیں پیوست ہیں، اور ہمارے ہی سر پر خطابت کی شاخیں سایہ فگن ہیں"۔
علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ) ترجمہ نہج البلاغہ کے حرف اول میں تحریر فرماتے ہیں کہ … یہ باب مدینۃ العلم ہی کی ذات تھی جس نے علم و حکمت کے بند دروازے کھولے، نطق و فصاحت کے پرچم لہرائے اور علمی ذوق کو پھر سے زندہ کیا۔[3]
علامہ شیخ کمال الدین محمد ابن طلحہ قریشی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤل فی مناقب آل الرسول میں علوم حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بیان میں لکھتے ہیں: "و اربعھا علم البلاغۃ و الفصاحۃ و کان فیحا اماما لایشق غبارہ و مقدما لا تلحق اثارہ و من وقف علی کلامہ المرقوم الموسوم بنھج البلاغۃ صار الخیر عندہ عن فصاحتہ عیانا والظن یعلو مقامہ فیہ ایقانا"، "چوتھے علم فصاحت و بلاغت، آپ اس میں امام کا درجہ رکھتے تھے جن کے گرد قدم تک بھی پہنچنا ناممکن ہے اور ایسے پیشرو تھے، جن کے نشان قدم کا مقابلہ نہیں ہوسکتا اور جو حضرت کے اس کلام میں مطلع ہو جو نہج البلاغہ کے نام سے موجود ہے اس کے لئے آپ کی فصاحت کی سماعی خبر مشاہدہ بن جاتی ہے اور آپ کی بلندی مرتبہ کا اس باب میں گمان یقین کی شکل اختیار کرلیتا ہے"۔[4]
دوسری جگہ لکھتے ہیں: "النوع الخامس فی الخطب والمواعظ مما نقلتہ الرواۃ و روتہ الثقات عنہ علیہ السلام قد اشتمل کتاب نہج البلاغۃ المنسوب الیہ علی انواع من خطبہ و مواعظہ الصادعۃ باوامرھا و نواھیھا المطلعۃ انوار الفصاحۃ والبلاغۃ مشرقۃ من الفاظھا و معانیھا الجامعۃ حکم عیون علم المعانی والبیان علی اختلاف اسالیبھا"،"پانچویں قسم ان خطب اور مواعظ کی شکل میں ہے جس کو راویوں نے بیان کیا ہے اور ثقات نے حضرت سے ان کو نقل کیا ہے اور نہج البلاغہ کتاب جس کی نسبت حضرت کی طرف دی جاتی ہے۔ وہ آپ کے مختلف قسم کے خطبوں اور موعظوں پر مشتمل ہے جو اپنے اوامر و نواہی کو مکمل طور پر ظاہر کرتے اور فصاحت و بلاغت کے انوار کو اپنے الفاظ و معانی سے تابندہ شکل میں نمودار کرتے اور فن معانی و بیان کے اصول و اسرار کو اپنے مختلف انداز بیان میں ہمہ گیر صورت سے ظاہر کرتے ہیں"۔[5]
ابن ابی الحدید نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے فضائل میں سے آپؑ کی فصاحت کے بارے میں لکھا ہے: "امام الفصاحۃ فھو امام الفصحا٫ و سیدالبلغا٫ و عن کلامہ قیل دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوقین و منہ تعلّم الناس الخطابۃ و الکتابۃ"، "فصاحت کی آپ کا یہ عالم ہے کہ آپ فصحاء کے امام اور اہل بلاغت کے سردار ہیں، آپ ہی کے کلام کے متعلق یہ مقولہ ہے کہ وہ خالق کے کلام کے نیچے اور تمام مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے اور آپ ہی سے دنیا نے خطابت و بلاغت کے فن کو سیکھا"۔
نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہونے والی چیزوں میں سے ایک فصاحت ہے جس کا حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبہ میں تذکرہ فرمایا ہے۔ آنحضرتؑ کے اس دعوی کے دلائل اور ثبوت خود حضرتؑ کا اپنا یہی خطبہ ہے اور نیز دیگر معصومین (علیہم السلام) کے ارشادات ہیں جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کو ایک کتاب میں جمع کیاگیا ہے جس کا نام "نہج الفصاحہ" ہے، جس میں آپؐ کے مختصر جملوں کے باوجود، ہر جملہ حقائق سے لبریز ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی نہج البلاغہ جو فصاحت و بلاغت کی معراج ہے اور اس پر فریقین کے علماء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، نہج البلاغہ کو سراہا ہے۔ نیز حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کا صحیفہ سجادیہ آپؑ کے دعوے کا بولتا ہوا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ 224۔
[3] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص22۔
[4] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص39۔
[5] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص40۔
Add new comment