فصاحت آل محمدؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں دشمنوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں سے اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ کی طرف سے عطاشدہ چیزوں میں سے ایک، فصاحت شمار کیا، اس عنوان پر یہ دوسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔

فصاحت آل محمدؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ. أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت، عطا ہوئی ہے"۔ اس مضمون میں ان چھ عطاؤں میں سے چوتھی صفت فصاحت کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔ البتہ اس عنوان پر پہلے ایک مضمون پیش کیا جاچکا ہے اور اب اس مضمون میں اس عنوان کے سلسلہ میں مزید گفتگو کی جارہی ہے۔
فصاحت قرآن اور احادیث کی روشنی میں: فصاحت کی اس قدر اہمیت ہے کہ جب حضرت موسی (علیہ السلام) اللہ تعالی کے حکم سے فرعون اور اس کے پیروکاروں کو توحید کی طرف ہدایت کرنے کے لئے جارہے تھے تو بارگاہ الہی میں عرض کیا: "أَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ"[2]، "اور میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح زبان کے مالک ہیں لہٰذا انہیں میرے ساتھ مددگار بنادے جو میری تصدیق کرسکیں کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ میری تکذیب نہ کردیں"، لہذا دین کی تبلیغ میں فصاحت کا خاص کردار اور اثر ہے۔
روایات میں بھی فصاحت و بلاغت کو انسان کی زینت، مومن کا کمال، خدا اور اولیائے الہی کے کلام کی صفات میں سے شمار کیا گیا ہے۔[3] حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: "الفَصاحَةُ زينَةُ الكَلامِ"[4]، "فصاحت، کلام کی زینت ہے"۔ پانچویں تاجدار امامت حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إنَّ اللّهَ تَعالى أعطَى المُؤمِنَ البَدَنَ الصَّحيحَ وَ اللِّسانَ الفَصيحَ..."[5]، "بیشک اللہ تعالی نے مومن کو صحت مند بدن اور فصیح (واضح) زبان دی ہے"۔ آیت اللہ ری شہری نے تحریر فرمایا ہے کہ شاید اس حدیث میں، مومن سے مراد، اہل بیت (علیہم السلام) ہوں۔[6] حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا کہ "مَن أفصَحُ النّاسِ؟"، " لوگوں میں سے سب سے زیادہ فصیح کون ہے؟ آنحضرتؑ نے فرمایا: "المُجيبُ المُسكِتُ عِندَ بَديهَةِ السُّؤالِ"، "جو اچانک (کیے گئے) سوال کے سامنے خاموش کردینے والا جواب دیدے"۔
اہل بیت (علیہم السلام) کے کلام میں فصاحت: اہل بیت (علیہم السلام) کو فصاحت رب العالمین کی جانب سے عطا ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حضراتؑ کے کلام پر کسی کا کلام ہرگز فوقیت نہیں پاتا اور فصیح و بلیغ افراد کا کلام بھی ان حضراتؑ کے کلام کے سامنے ماند پڑجاتا ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا کلام، قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کے بعد بلیغ ترین اور فصیح ترین کلام ہے، کیونکہ آپؑ کے کلام سے علم الہی اور کلام نبوی کی خوشبو مہکتی ہے۔ علامہ احمد ابن منصور کازرونی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے حالات میں لکھتے ہیں: "و ایم اللہ لقد وقف دونہ فصاحۃ الفصحا و بلاغۃ البلغا٫ و حکمۃ الحکما٫"، "اور خدا کی قسم آپ کی فصاحت کے سامنے تمام فصحا کی فصاحت اور بلیغوں کی بلاغت اور حکماء روزگار کی حکمت مفلوج و معطل ہو کر رہ جاتی ہے"۔[7]تطہیر کے اس گھرانہ کو ایسی فصاحت سے نوازا گیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أعرِبوا حَديثَنا فَإِنّا قَومٌ فُصَحاءُ"[8]، "ہماری حدیث (اور بات) کو واضح بیان کرو، کیونکہ ہم فصیح (واضح طور پر بولنے والے) لوگ ہیں"۔ قیام عاشورا کے دوران حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے خطبوں میں انتہائی فصاحت و بلاغت دکھائی دیتی ہے، گویا آپؑ کے خطبے اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے خطبوں کی مثال ہیں۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپؑ اس قدر فصیح و بلیغ بات کرتی تھیں کہ گویا کلام آپؑ کے باپ حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) کی زبان سے جاری ہورہی ہے۔[9] واقعہ کربلا کے دوران جو اہل بیت (علیہم السلام) کے گھرانہ نے ارشادات فرمائے، ان میں علم معانی، بیان اور بدیع کی مختلف قسموں کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں جن کو بیان کرنے کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے، صرف ایک مثال بیان کیے دیتے ہیں: حضرت اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) بصرہ کے سرداروں کو خط لکھتے ہوئے معاشرہ کے حالات کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: "وأنَا أدعوكُم إلى كِتابِ اللّه ِ وسُنَّةِ نَبِيِّهِ صلى الله عليه و آله، فَإِنَّ السُّنَّةَ قَد اُميتَت ، وإنَّ البِدعَةَ قَد اُحيِيَت"، "اور میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کی سنّت کی طرف دعوت دیتا ہوں، کیونکہ سنت کو مار دیا گیا ہے اور بدعت کو زندہ کردیا گیا ہے"۔ آپؑ کے اس جملہ میں علم بدیع کی ایک قسم استعمال ہوئی ہے جسے طباق و مقابلہ کہاجاتا ہے، طباق دو متضاد لفظوں کو ایک جملہ میں استمال کرنے کو کہتے ہیں۔ امام حسین (علیہ السلام) کے اس حوصلہ افزا اور حیات بخش جملہ میں دو طرح کے متضاد لفظ استمال ہوئے ہیں یعنی "السُّنَّةَ اور البِدعَةَ" کا آپس میں اور "اُميتَت اور اُحيِيَت" کا آپس میں طباق اور مقابلہ کیا گیا ہے۔ نہج البلاغہ جیسے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی فصاحت و بلاغت کا واضح ثبوت ہے اسی طرح صحیفہ کاملہ سجادیہ بھی حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی فصاحت و بلاغت کا منہ بولتا ہوا ثبوت ہے۔ وہ صحیفہ جس میں دعا کے ساتھ ساتھ، اسلامی تعلیمات، اسلامی سیاست، اسلامی اخلاق، اسلامی سماجی علوم، شیعہ کی حقانیت، اہل بیت (علیہم السلام) کی حقانیت، ظلم اور ظالم پر اعتراض، حق اور حقیقت کی نصیحت بھی بیان ہوئی ہے۔حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کا صحیفہ ایسی کتاب ہے جسے محققین نے اخت القرآن، انجیل اہل بیت (علیہم السلام) اور زبور آل محمدؐ کا نام دیا ہے۔ دو مقامات پربات کرنا مشکل ہے: پہلا مقام میدان جنگ ہے، خصوصاً جہاں پر دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہو اور ان کے پاس جنگی ذرائع بھی کثرت سے پائے جائیں اور مقصد میں بھی دشمن سے مکمل طور پر تضاد اور مخالفت ہو جیسے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا کئی ہزار دشمنوں سے سامنا تھا اور آپؑ کا مقصد بھی لوگوں کی ہدایت اور آخرت کی طرف متوجہ کرنا تھا، لیکن ان لوگوں کا مقصد، دنیا، حکومت اور ریاست تک پہنچنا تھا۔ ایسے حالات کے باوجود آنحضرتؑ نے کئی بار دشمن کی فوج سے مخاطب ہوکر خطبے ارشاد فرمائے جو فصاحت و بلاغت سے جگمگاتے ہوئے چراغ تھے۔ آپؑ نے اپنے عظیم اہداف کو ایسے الفاظ میں بیان کیا اور لوگوں پر حجت تمام کردی کہ رہتی دنیا تک آپؑ کی مظلومیت، حقانیت، شجاعت اور فصاحت و  بلاغت کی واضح دلیل ہے۔ دوسرا مقام وہاں ہوتا ہے جہاں دشمن کی مدح و تعریف کے لئے محفل سجائی جائے، لیکن خطیب قیدی ہو اور اپنے خطاب کے ذریعہ دشمن سے خطابت کا سلسلہ کلام لے لے اور خود ایسا خطاب کرے جو حقیقت پر مبنی ہو، جو دشمنوں کی عداوت سے بھرپور محفل میں خطاب کرتے ہوئے محفل پر غالب آجائیں، دشمن کو بے نقاب کرکے لوگوں کو حقیقت سے روشناس کردیں اور دشمن کی زبان سے پرانے کینے کی بھڑکتی ہوئی آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں کو یوں بجھادیں کہ دشمن کا ناطقہ بند ہوجائے اور وہ بغض کی آگ اپنے اندر لیے ہوئے تخت سلطنت پر بیٹھے ہوئے بھی جہنم کی جلن کو اپنے وجود کے اندر محسوس کرے۔ اگر کوئی شخص آپؑ کے اس خطبہ کو ابتدا سے آخر تک غور سے پڑھے تو آپؑ کی فصاحت و بلاغت سے آشنا ہوجائے گا اور نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوجائے گی کہ آپؑ کے اس خطبہ کا اثر صرف اُسی زمانہ میں محدود نہیں تھا، بلکہ مستقبل  میں بھی خطباء کے پڑھنے سے لوگوں پر کتنا اثرانداز ہے اور اصلاح کا باعث ہے۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے اس فصیح و بلیغ خطبہ میں حضرتؑ نے اہل بیت (علیہم السلام) کی فصاحت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ خطبہ ہی اتنا فصیح اور دلنشیں ہے کہ سننے والا اور پڑھنے والا جتنا مزید آگے سنتا ہے اور پڑھتا ہے تو وہ مزید آپؑ کے بیانات کا تشنہ ہوجاتا ہے اور جب سننے والوں کی تشنگی عروج پر پہنچی ہوئی تھی تو دشمن کا صبر ٹوٹ گیااور اس نے  آپؑ کے خطبہ کو روک دیا، یہاں پر تاریخ نے واپس پلٹ کر دیکھا تو امیرالمومنین (علیہ السلام) کے خطبہ شقشقیہ کے روکے جانے اور ادھورا رہ جانے کا منظر نظر آیا تو اس کی حسرت دوبارہ تازہ ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔ً
[2]سورہ قصص، آیت 34۔
[3] دانشنامه قرآن و حدیث، ج14، ص527۔
[4] سفینة البحار، شیخ عباس قمی، ج3، ص587۔
[5] بحار الأنوار، ج64، ص303۔
[6] دانشنامه قرآن و حدیث، ج14، ص527۔
[7]ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص43۔
[8] الكافي : ج 1 ص 52 ح 13۔ بحار الأنوار : ج 2 ص 151 ح 28۔
[9] خوارزمی، مقتل الحسین، ج2، ص40۔ ابن الطاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص146۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 73