خلاصہ: اللہ تعالی نے قرآن کریم کی کئی آیات میں اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام اور شان اور اسم بیان فرمائے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق و کردار بھی بیان ہوا ہے اور اسمائے گرامی بھی۔ ان اسمائے گرامی میں سے دو نام "احمد" اور ''محمد" ہیں۔ اس مضمون میں مختصر طور پر اخلاق پر اور ان دو اسمائے گرامی پر گفتگو ہورہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت محمد ابن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم کی نسل میں سے، اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں جو 17 ربیع الاول اور عام الفیل میں شہر مکہ میں پیدا ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت مسعود سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد گرامی انتقال کرچکے تھے اور والدہ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش اور کفالت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) اور چچا حضرت ابوطالب (علیہ السلام) کی زیرنگرانی ہوتی رہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صداقت کی پابندی اور امانت کی حفاظت کی وجہ سے جوانی میں "محمد امین" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 40 سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے اور 23۲۳ سال کلمہ توحید اور اسلام کی تبلیغ کے راستہ میں محنت و کوشش کرتے رہے اور حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو اپنی خلافت و جانشینی کے لئے منصوب کرتے ہوئے، 63 سال کی عمر میں دار فانی سے الوداع کرکے دارالبقاء کی طرف وصال الہی اور ملاقاتِ پروردگار تک پہنچ گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال سے اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا داغِ مفارقت انتہائی سنگیں اور گراں تھا۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود پُرنور ایسا مبارک وجود ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخلاق، بات اور کردار کے لحاظ سے انتہائی عروج اور نہایت ہی بلندی پر فائز ہیں۔ ذات احدیت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"[1] "اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں"۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت و سنت تمام انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے خوبصورت ترین معیار ہے۔ لہذا ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے اِس آخری پیغمبر کی جو سیدالمرسلین اور فخر انبیا ہیں، پہنچان، شناخت اور معرفت حاصل کرے اور ہر سوچ، بات اور کردار میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح سے نمونہ عمل قرار دیا کہ فرمایا: "لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّہ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّہ كَثِيرًا"[2]، "مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے"۔ اس آیت سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ انسان تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقشِ قدم پر چل سکتا ہے جب اللہ اور آخرت سے امید وابستہ رکھے اور اللہ کو بھی بہت زیادہ یاد کرے، یعنی اگر یہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں تو انسان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ بنابریں اگر انسان دیکھے کہ میں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر نہیں چل پا رہا تو اسے اِن شرائط پر غور کرنا چاہیے کہ ان شرائط کو پورا کرنے میں میری طرف سے کوتاہی ہورہی ہے۔
اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بہت ساری صفات اور تعریفیں بیان فرمائی ہیں۔ اس مضمون میں اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے دو قطروں کی اور اس منارۂ نور کی دو کرنوں کی وضاحت پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس عظیم ہستی کا مقام کتنا ہی بلند ہے جو سارے انسانوں کے لئے نمونہ عمل اور چراغ ہدایت بننے کی لیاقت رکھتی ہے۔ بعض علما نے قرآن کریم سے مستند کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے چار سو اسماء گرامی شمار کیے ہیں "سماه فی القرآن باربعمائة اسم"۔[3] پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ "أمَّا مُحَمَّدٌ فَإنِّي مَحمودٌ فِي الأرضِ، وأ مَّا أحمَدُ فَإنِّي مَحمودٌ فِي السَّماءِ"[4]، "میں محمد ہوں کیونکہ زمین پر میری تحسین کی گئی ہے اور میں احمد ہوں کیونکہ آسمان پر میری تحسین کی گئی ہے"۔ان چار سو اسما٫ میں سے دو نام، "محمد" اور "احمد" ہیں جو دونوں قرآن میں ذکر ہوئے ہیں۔ اسم "محمد" قرآن کریم میں چار مرتبہ ذکر ہوا ہے: سورہ محمد[5]، سورہ فتح[6]، سورہ احزاب[7]، سورہ آل عمران[8] میں اور اسم "احمد" قرآن مجید میں ایک مرتبہ ذکر ہوا ہے، جہاں پر حضرت عیسی ابن مریم (علیہماالسلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت اور خوشخبری دی ہے۔ عیسی ابن مریم، کلمۃ اللہ، روح اللہ، مردوں کو زندہ کرنے والے، پیدائشی اندھے اور مبروص کا علاج کرنے والے جیسے مقامات کے حامل ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا منصب یہ ہے: میں بشارت دینے والا ہوں۔ کس بات کی بشارت دینے والے ہیں؟ "بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ[9]"،[10]، "اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے"۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا کہ احمد کی تاویل کیا ہے؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: "حسن ثناء الله عزوجل عليه في الكتب بما حمد من أفعاله"، " اللہ نے (سابقہ انبیا کی) کتب میں آنحضرت کے کردار کی حمد کرنے کے لئے، آنحضرت کی ثنا کی ہے۔ عرض کیا گیا: تو محمد کی تاویل کیا ہے؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: "إن الله وملائكته وجميع أنبيائه ورسله وجميع أممهم يحمدونه ويصلون عليه، وإن اسمه المكتوب على العرش محمد رسول الله" ۔[11] یقیناً اللہ اور ملائکہ اور سب انبیا اور مرسلین اور مرسلین کی سب امتیں، آنحضرت کی حمد کرتے ہیں اور آنحضرت پر درود بھیجتے ہیں اور بیشک آنحضرت کا نام عرش پر لکھا ہے: محمد رسول اللہ"۔
نیز اسم "محمد" اور اسم "علی" کے بارے میں حضرت ابوذر ؒ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا: "خلقت أنا وعلي من نور واحد نسبح الله يمنة العرش قبل أن خلق آدم بألفي عام … وشق لنا اسمين من اسمائه فذو العرش محمود وانا محمد والله الاعلى وهذا علي [12]"، "میں اور علیؑ ایک نور سے خلق ہوئے، ہم عرش کی دائیں طرف آدمؑ کی خلقت سے دو ہزار سال پہلے اللہ کی تسبیح کرتے تھے … اور اللہ نے اپنے اسما میں سے ہمارے (میں اور علیؑ) کے لئے دو اسم مشتق کیے تو صاحبِ عرش محمود ہے اور میں محمد ہوں اور اللہ، اعلی ہے اور یہ، علی ہیں"۔
نتیجہ: اللہ تعالی نے قرآن کریم میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کئی مقام، فضائل اور منصب بیان فرمائے ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اسما قرآن میں ذکر ہوئے ہیں، ان میں سے دو نام، محمد اور احمد ہیں۔ زمین پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محمد کہا جاتا ہے اور آسمان پر احمد۔ اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام "محمد" اور حضرت امیرالمومنین کے نام "علی" کو اپنے نام سے مشتق کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ قلم، آیت 4۔
[2] سورہ احزاب، آیت 21۔
[3] ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب (علیہم السّلام)، ج1، ص130۔
[4] حكم النّبيّ الأعظم، محمدی ری شہری، ج2، ص317۔
[5] سورہ محمد، آیت 2۔
[6] سورہ فتح، آیت 29۔
[7] سورہ احزاب، آیت 40۔
[8] آل عمران، آیت 144۔
[9] سورہ صف، آیت 6۔ مکمل آیت یہ ہے: "وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ"، "اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسٰی علیہ السّلام بن مریم علیہ السّلام نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کِھلا ہوا جادو ہے"۔ؔ
[10] یہ آخری حصہ آیت اللہ العظمی حسین وحید خراسانی کے بیانات سے ماخوذ ہے۔ دیکھیے: http://wahidkhorasani.com
[11] من لا يحضره الفقيه، شیخ صدوق، ج4، ص178۔
[12] معاني الأخبار، شیخ صدوق، ج1، ص56۔
Add new comment