خلاصہ: جیسے دیگر معصومین حضرات (علیہم السلام) کے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیانات پائے جاتے ہیں، اسی طرح حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ارشادات پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں وہ ارشادات جو نہج البلاغہ میں نقل ہوئے ہیں، ان میں سے آٹھ خطبوں سے منتخب کیے گئے، جو یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ: پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اسقدر عظیم ہے کہ قرآن، نہج البلاغہ، اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث اور دیگر مآخذ میں متعدد مقامات پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل و کمالات کا تذکرہ ہوا ہے۔ ان میں سے اِس مضمون میں صرف نہج البلاغہ میں جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیان ہوا ہے، پیش کیا جارہا ہے۔ خطبات نمبر 1، 2، 26، 33، 70، 92، 93، 94۔
خطبہ 1 میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: یہاں تک کہ اللہ سبحانہ‘نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لئے محمد کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جُدا جُدا خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے۔ کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ خداوندِ عالم نے آپ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا او ر آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا۔ پھر اللہ سبحانہ‘ نے محمد کو اپنے لقاء و قرب کے لئے چنا، اپنے خاص انعامات آپ کے لئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بودو باش سے آپ کو بلندتر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے باعزت آپ کو اٹھا لیا۔ حضرت تُم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے، جو انبیاء اپنی امتوں میں چھوڑتے جاتے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر (ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام ، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ رخص و عزائم، خاص و عام، عبرو امثال، مقیدو مطلق، محکم و منشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی۔ اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔
خطبہ ۲ میں فرماتے ہیں: اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں۔ جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدُہ نشان، لکھی ہوئی کتاب، ضُوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل (کے زور) سے حجت تمام کی جائے۔ آیتوں کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوف زدہ کیا جائے (اس وقت حالت یہ تھی کہ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے۔ نکلنے کی راہیں تنگ و تاریک تھیں ۔ ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں ) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جارہی تھی ایمان بے سہارا تھا۔
خطبہ ۲۶ میں فرماتے ہیں: اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے ) متنبہّ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب اس وقت تُم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے۔ کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بودو باش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے اور لوٹا جھوٹا کھاتے تھے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔
خطبہ ۳۳ میں فرماتے ہیں: اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا ، اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے۔
خطبہ ۷۰ میں فرماتے ہیں: اے اللہ! اے فرش زمین کے بچھانے والے اور بلند آسمانوں کو (بغیر سہارے کے ) روکنے والے دلوں کو اچھی اور بُری فطرت پر پیدا کرنے والے۔ اپنی پاکیزہ رحمتیں اور بڑھنے والی برکتیں قرار دے۔ اپنے عہد اور رسول محمد کے لئے جو پہلی (نبو ّتوں کے ) ختم کرنے والے۔ اور بند (دل) کھولنے والے اور حق کے زور سے اعلانِ حق کرنے والے، باطل کی طغیانیوں کو دبانے والے، اور ضلالت کے حملوں کو کچلنے والے تھے جیسا ان پر (ذمہ داری کا ) بوجھ عائد کیا گیا تھا، اس کو انہوں نے اٹھایا اور تیری خوشنودیوں کی طرف بڑھنے کے لئے مضبوطی سے جم کر کھڑے ہو گئے۔ نہ آگے بڑھنے سے منہ موڑا، نہ ارادے میں کمزوری کو راہ دی۔ وہ تیری وحی کے حافظ اور تیرے پیمان کے محافظ تھے اور تیرے حکموں کے پھیلانے کی دھن میں لگے رہنے والے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے روشنی ڈھونڈنے والے کے لئے شعلے بھڑکا دیئے، اور اندھیرے میں بھٹکنے والے کے لئے راستہ روشن کر دیا۔ فتنوں فسادوں میں سر گرمیوں کے بعد دلوں نے آپ کی وجہ سے ہدایت پائی۔ انہوں نے راہ دکھانے والے نشانات قائم کئے۔ روشن و تابندہ احکام جاری کئے۔ وہ تیرے امین معتمد اور تیرے علم مخفی کے خزینہ دار تھے اور قیامت کے دن تیرے گواہ اور تیرے پیغمبر برحق اور خلق کی طرف فرستادہ رسول تھے۔ خدا یا ان کی منزل کو اپنے زیر سایہ وسیع و کشادہ بنا۔ اور اپنے فضل سے انہیں دہرے حسنات عطا کر خدا وند تمام بنیاد قائم کرنے والوں کی عمارت پر ان کی بناء پر اس، عمارت کو فوقیت عطا کر اور انہیں باعزت مرتبے سے سرفراز کر اور ان کے نور کو پورا پورا فروغ دے اور انہیں رسالت کے صلہ میں شہادت کی تولیت و پذیرائی اور قول و سخن کی پسندیدگی عطا کر۔ جب کہ آپ کی باتیں سراپا عدل اور فیصلے حق و باطل کو چھانٹنے والے ہیں۔ ا ے اللہ ! ہمیں بھی ان کے ساتھ خوش گوار و پاکیزہ زندگی اور منزلِ نعمات میں یکجا کر اور مرغوب و دل پسند خواہشوں اور لذتوں اور آسائش و فارغ البالی اور شرف و کرامت کے تحفوں میں شریک بنا۔
خطبہ ۹۲ میں فرماتے ہیں: یہاں تک یہ الہیٰ شرف محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین ، اور ایسے اصلوں سے کہ جو نشوو نما کے لحاظ سے بہت باوقار تھیں ، پیدا کیا اسی شجرہ سے ، کہ جس سے بہت سے انبیاء پیدا کئے اور جس میں سے اپنے امین منتخب فرمائے ۔ ان کئی عزت بہترین عزت ، اور قبیلہ بہترین قبیلہ ، اور شجرہ بہترین شجرہ ہے ۔ جو سر زمین حرم پر اُگا، اور بزرگی کے سایہ میں بڑھا۔ جس کی شاخیں دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں وہ پرہیز گاروں کے امام ہدایت حاصل کرنے والوں کے لیے (سر چشمہٴ ) بصیرت ہیں ۔ وہ ایسا چراغ ہیں ۔ جس کی روشنی لو دیتی ہے ۔ اور ایسا روشن ستارہ جس کا نور ضیا پاش، اور ایسا چقماق ، جس کی ضوشعلہ نشاں ہے ۔ ان کی سیرت (افراط و تفریط سے بچ کر) سیدھی راہ پر چلنا اور سنت ہدایت کرنا ہے ۔ ان کا کلام حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا، اور حکم عین عدل ہے ۔ اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا کہ جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا بد عملی پھیلی ہوئی، اور امتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔
خطبہ ۹۳ میں فرماتے ہیں: پیغمبر کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگو حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردہ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا۔ اور غرور نے مہکا دیا تھا اور بھر پور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھودی تھیں اور حالات کے ڈانوں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ چنانچہ نبی نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا خود سیدھے راسے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔
خطبہ ۹۴ میں فرماتے ہیں: بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں ان کا مقام بہترین مقام اور مزربوم بہترین مزربوم ہے۔ ان کی طرف نیک لوگوں کے دل جھکا دیئے گئے ہیں اور رنگاہوں کے رخ موڑ دیئے گئے ہیں ۔ خدا نے ان کی وجہ سے فتنے دبادینے ، اور (عداوتوں کے) شعلے بجھا دئیے بھائیوں میں الفت پیدا کی ور جو ( کفر میں( اکٹھے تھے، انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ (اسلام کی پستی و ذلت کو عزت بخشی اور کفر کی) عزت و بلندی کو ذلیل کر دیا۔ ان کا کلام (شریعت کا) بیان اور سکوت (احکام کی) زبان تھی۔[1]،[2]
نتیجہ: مذکورہ کئی خطبات میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے، معاشرہ کی بری صورتحال بیان فرمائی ہے۔ نیز مذکورہ بالا خطبوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان و عظمت کے چند موتی بھی اپنی لسانِ اطہر سے دنیا والوں کی طرف نچھاور کیے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مذکورہ خطبوں کے سب ترجمے علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ) کے ترجمہ نہج البلاغہ سے یہاں پر نقل ہوئے ہیں۔
[2] مطالب میں لکھائی کی غلطیاں پہلے سے لکھی گئی تحریر جو نیٹ میں موجود ہے، سے چلی آرہی ہیں۔
Add new comment