خلاصہ: ہر انسان کی فردی یا اجتماعی زندگی میں خواہ نخواہ کچھ راز و رموز ہوتے ہیں جن کی حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے، یہی حکم خدا ہے اور سنت نبی بھی۔
دور حاضر کو کہ جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، اس کو ترقی یافتہ عصر سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ زمانہ اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اگر ہم کوئی بھی بات کہیں بیٹھ کر کہہ یا کر رہے ہیں تو وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں دیکھی اور سنی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف سے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ انسان اپنی زندگی میں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اپنی فردی یا اجتماعی زندگی میں کچھ اسرار و رموز رکھتا ہے کہ چاہئے کہ ان کی حفاظت کی جائے، بعض اسرار و رموز خود اپنی ذات سے متعلق ہوتے ہیں، بعض گھریلو، سماج اور معاشرہ سے متعلق ہوتے ہیں اور یہ ایسے راز و رموز ہوتے ہیں جو ایک انسان، معاشرہ یا سماج کی ترقی یا تنزلی میں کافی اہم رول ادا کرسکتے ہیں، دنیا کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کی کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے ان راز و رموز کی حفاظت کریں تاکہ غیر اس سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکے، اور قطع نظر اس کے کہ دنیا ترقی کرچکی ہے اگر نہ بھی کرتی تب بھی ہمیشہ ہمیں اپنے راز و رموز کی حفاظت کرنا چاہئے تاکہ دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے یا ترقی کے راستے میں پیش آنے والے موانع سے محفوظ رہیں اور یہی سنت خدا، رسول اور اہلبیت ہے۔
چنانچہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے، ” عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلَى غَیْبِهِ أَحَدًا “(سوره جن؛ ۲۶) خدا تمام غیب کو جانتا ہے اسے ہر چیز کا علم ہے مگر وہ اپنے اس علم کو کسی پر بھی ظاہر نہیں کرتا یعنی خدا اپنے رموز کو کسی پر عیاں نہیں کرتا۔
دوسرے مقام پر خدا جناب یوسف(علیہ السلام) کے اس خواب کو بیان فرما رہا ہے جس کی وجہ سے جناب یوسف (علیہ السلام) کی جان کو خطرہ لاحق تھا، ” قَالَ یَا بُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَى إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُواْ لَکَ کَیْدًا إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِینٌ “(یوسف؛ ۵) اے بیٹے اپنے خواب کو اپنے بھائیوں کے سامنے بیان مت کرنا، ممکن ہے وہ تمہارے لئے کوئی خطرہ کھڑا کرے یا کوئی جال بچھادے، بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔
ایک مقام پر امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” لَا تُطْلِعْ صَدِيقَكَ مِنْ سِرِّكَ إِلَّا عَلَى مَا لَوِ اطَّلَعَ عَلَيْهِ عَدُوُّكَ لَمْ يَضُرَّكَ فَإِنَّ الصَّدِيقَ قَدْ يَكُونُ عُدُّواً يَوْماً مَا[1] “ اپنے دوست کو اتنا ہی اپنے راز سے آگاہ کرو کہ اگر وہ کسی کو بتادے تو تمہیں کوئی ضرر نہ ہو، کیونکہ ممکن ہے کبھی دوست دشمن بھی بن جائے، آیات بالا اور حدیث مذکورہ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر راز کو کسی کے بھی حتی قریبی دوست کے بھی سامنے نہ بیان کریں خصوصا وہ راز و رموز جو انسان کی جان، مال اور عزت آبرو کے خطرہ کا سبب بنے۔
چنانچہ اس مقام پر ایک حکایت کو بھی کو نقل کرنا غلط نہ ہو گا کہ ایک غلام، ایک تھال پر کپڑا ڈھکے ہوئے کچھ لے جارہا تھا، ہمسفر دوست نے اس سے پوچھا کہ کیا لے جارہے ہو؟ وہ غلام خاموش رہا، اس نے پھر پوچھا اور پھر کافی اصرار کیا تو اس عقلمند غلام نےجواب دیا کہ اگر یہ طے ہوتا کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ اس میں کیا ہے؟ تو اس پر یہ کپڑا ہی کیوں ڈالتے؟۔
راز و رموز کی بھی درجہ بندی ہے اور ہر راز فاش ہونے کا ایک اثر ہے اور اسی طرح فاش کرنے والے کی ایک سزا معین ہے، بعض راز، صرف ایک شخص کی، بعض ایک خاندان کی اور بعض پورے معاشرے اور قوم کی اور بعض پورے ملک کی دلچسپی کے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر ایک انفرادی راز فاش ہو تو ذاتی حیثیت، ایک عائلی راز منظرِ عام پر آ جائے تو عائلی حیثیت کہ جسکی زد میں کئی اشخاص آئیں گے اور معاشرے کے کسی بھید کے فاش ہونے سے قومی حیثیت سے دوسروں کو کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے کہ جس کی زد میں کئی خاندان آئیں گے لیکن اگر ایک ملکی راز فاش ہوجائے تو اسکی زد میں کئی سماج و معاشرہ آئیں گے۔ مثلا کسی ریاست نے اپنے ملکی بھید، اپنے دشمن کے ہاتھوں میں جانے دئیے۔ مثلاََ ایک فوج نے اپنی ساری جنگی حکمتِ عملی اپنی دشمن کی فوج کے آگے کھول کر رکھ دی۔ اب اگر اپنے یہ راز کھو دینے والا ملک اپنے لئیے خواہ کتنا ہی کارآمد مردِ عمل کیوں نہ ڈھونڈ نکالے‘ اِس ملک کے سنبھل جانے‘ اِس کی فوج کے فتح حاصل کرنے اور اس کے مردِ عمل کے کامیابی حاصل کرنے کا قطعاََ کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ راز، طاقت کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور ایک ایسی فوج کی طرح ہے جِسے شکست نہیں دی جا سکتی، اس طرح پورا سماج و معاشرہ خطرہ میں پڑ جائے گا۔
یہی وجہ ہے راز جب تک سینے میں رہتا ہے صاحبِ راز کے لئیے طاقت کا کام دیتا ہے۔ مگر جب دوسروں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ ایک ایسا ہتھیار بن جاتا ہے جو صاحبِ راز کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ” سِرُّكَ أَسِيرُكَ فَإِنْ أَفْشَيْتَهُ صِرْتَ أَسِيرَه [2] “ تیرا راز تیرا اسیر ہے، جب اسے فاش کردیتے ہو تو تم اُس کے اسیر بن جاتے ہو۔
انسان اپنا راز جس شخص کے سپرد کرتا ہے وہ شخص اتنا امین ہونا چاہیے کہ اُس کے پاس ناموس امانت کے طور پر رکھی جا سکے۔ اور اس کی حفاظت کرنے کے بارے میں اسے اتنا محتاط ہونا چاہیے جتنا خود اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے محتاط ہوتا ہے۔ اِمانت کسی ایسے ناقابلِ اعتبار شخص کے سپرد نہیں کرنی چاہیے جو امین نہ ہو اور راز ایسے شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہیے جو راز کو ناموس نہ سمجھے۔
راز رکھنا اور دوسروں کے راز کی پاسداری کرنا ایک ایسی انسانی خوبی ہے جس کا تعلق سو فیصد اِرادے اور ادراک سے ہے۔ ہمارے ہادیان اسلام اسی لئے کہتے ہیں[3] سینے اس لئیے بنائے گئے ہیں کہ وہ راز رکھنے کے لئیے ایک صندوقچے کا کام کریں ۔عقل ان صندوقچوں کا تالا اور قوتِ ارادی ان کی کنجی ہے۔ جب تک اس تالے اور کنجی میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوتا تب تک صندوقچے کے اندر پڑے جواہرات تک کسی کی رسائی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
مطالب مذکور سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم جب تک ممکن ہو اپنے راز و رموز کو پوشیدہ رکھیں اگر کسی کو بتانے کی نوبت آبھی جائے تو اتنا ہی بتائیں جسکے فاش ہونے سے آپ کی جان یا عزت آبرو کے خطرہ کا سبب نہ بنے اور اس بات کا بھی خیال رہے کہ جسے بتا رہے ہیں وہ امین ہے کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] بحار الانوار ج72، ص71، باب فضل کتمان السر،مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق،چاپ دوم۔
[2] تصنیف غرر الحکم و درر الکلم ، الفصل الثامن فی فضل کتمان السر، ص۳۲۰، تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، محقق / مصحح: درايتى، مصطفى، انتشارات دفتر تبليغات، قم، 1366 ش، چاپ اول۔
[3] امام علی علیہ السلام ” صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوقُ سِرِّه “مستدرک الوسائل، ج11، ص207، نورى، حسين بن محمد تقى، انتشارات مؤسسة آل البيت عليهم السلام، بتحقیق مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، 1408 ق، چاپ اول۔
Add new comment