خلاصہ:کبھی کبھی ہم لوگ مذاق میں حدیں پار کر جاتے ہیں اور اپنے سے باہر ہو جاتے ہیں اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس میں ہم دوسرے کی آبرو سے کھیل رہے ہوتے ہیں اور بعد میں پشیمان بھی ہوتے ہیں البتہ کبھی کبار، لیکن تب وقت گزرچکا ہوتا ہے اور ہاں کبھی کبھی تو ایسے مرحلے پے آ پہنچتے ہیں کہ جب مذاق کی حد بڑھتی ہے تو سامنے والا اگر کچھ کہہ بھی دیتا ہے تو ہم پھر منہ سے کچھ نہ کچھ اور بھی کہتے ہیں جسے دوسرے الفاظ میں گالیاں کہا جاتا ہے، تو یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس میں نہ یہ کہ صرف دوسرے کی آبرو جا رہی ہوتی ہے بلکہ اپنی آبرو بھی کھو دیتے ہیں۔
پيامبر گرامي اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)
اِنَّ حُرمَةَ عِرض المُؤمِنِ كَحُرمَةِ دمِهِ و مالِهِ.
مؤمن کی آبرو کی حرمت ایسے ہے جیسے اس کی جان و مال کی حرمت ہے ۔[1]
دین مقدس اسلام نے دوسرے کی آبرو کی حفاظت کرنے کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسی طرح دوسرے کی آبرو کو خون اور مال کے ساتھ بھی نسبت دی ہے اسی لیے دین نے یہ دستور دیا ہے کہ دوسروں کی آبرو کی حفاظت کریں۔
پیامبر اكرم(صلی الله علیه و آله و سلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ : «قُوا بِاَموالِكُم عَن اَعراضِكُم».[2] «اپنی آبرو کو اپنے مال کے ذریعے حفظ کرو ».
ایک اور جگہ ارشاد فرمایاکہ : « لا تَخرِقَنَّ عَلی اَحَدٍ سِتراً ».[3] « کسی کے پردے کو فاش نہ کرو ».
کوئی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھے یعنی خود کو تو آبرو مند سمجھے اور دوسرے کو کچھ نہیں، تمام انسانوں کی خلقت ایک جیسی ہوئی ہے کوئی بھی کسی بھی صفت کی وجہ سے خود کو دوسرے سے اعلی نہیں سمجھ سکتا اسی لیے برتری کا جو معیار بتایا گیا ہے وہ تقوی ہے ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ : « یا اَیُّهَا النّاسُ اِنّا خَلَقناكُم مِن ذَكَرٍ وَ اُنثی وَ جَعَلناكم شُعوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفوا اِنَّ اَكرَمَكُم عَندَاللهِ اَتقاكُم ».(سوره حجرات / آیت 13) « انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے ».
ذرہ توجہ کریں کہ خداوند متعال نے جو برتری کا معیار بتایا ہے وہ تقوی ہے اور تقوی صفت ہی ایسی ہے کہ اس کا مالک خود کو کچھ بھی نہیں سمجھتا۔
جس طرح ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے پانی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح اس انسان کے لیے آبرو کا ہونا بھی ضروری ہے خداوند متعال کے نزدیک مؤمن کا بہت بڑا مقام ہےاسی لیے فرمایا: « اِنَّ اللهَ یُدافِعُ عَنِ الَّذینَ ءامَنوا ».(سوره حج / آیت 38) بیشک اللہ صاحبانِ ایمان کی طرف سے دفاع کرتا ہے اور یقینا اللہ خیانت کرنے والے کافروں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے.
جب مؤمن کی مدافع خود خداوند متعال کی ذات ہے پھر کسی کی کیا جرات کے وہ اس کے پردے فاش کرے۔
اسی طرح مختلف مقامات پر اشارہ کیا جیسے سورہ نساء میں ارشاد فرمایا: « وَ مَن یَكسِب خَطیئهً اَو اِثماً ثُمَّ بِهِ بَریـئاً فَقَدِ احتَمَلَ بُهتاناً وَ اِثماً مُبیناً ».(سوره نساء / آیت 112) اس آیہ میں تہمت لگانے والے لوگوں کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ کیسے وہ بے گناہ افراد کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں: « اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ہے وہ بہت بڑے بہتان اور کِھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتا ہے».
اور اسی طرح روایات میں مؤمن کی آبرو کی بہت اہمیت بیان ہوئی ہے پیامبر اكرم(صلی الله علیه و آله و سلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ : « الرِّبا ثَلاثَهٌ وَ سَبعونَ باباً اَیسَرُها مِثلُ اَن یَنكِحَ الرَّجُلُ اُمَّهُ وَ اِنَّ اَربَی الرِّبا عِرضُ الرَّجُلِ المُسلِمِ ».[4]« یعنی، ربا کی 73 قسمیں ہیں اور ان میں سے آسان ترین یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں سے زنا کرے اور سخت ترین یہ ہے کہ کسی مؤمن کی آبرو کو ٹھیس پہنچایا جائے»۔
نتیجہ
آیات اور روایاتاس چیز کی توجہ دلاتی ہیں کہ کسی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی مؤمن کا مذاق اڑائے اور اس کی آبرو کے ساتھ کھیلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
1 ۔ لئالي الاخبار، ج 5، ص 226
2 ـ رهنمای انسانیت / صفحه 3
3 ـ رهنمای انسانیت / صفحه 4
4 ـ میزان الحكمه / محمد محمدی ری شهری / ترجمه حمیدرضا شیخی / قم / موسسه دارالحدیث / چاپ 2 / جلد 9 / صفحه 4222
Add new comment