خلاصہ:: ۵ ربیع الثانی سلمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں امویوں کے خلاف توابین نے قیام کیا اس معرکہ کو ’’عین الوردہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور سلیمان ابن صرد خزاعی نے کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کی مدد کیوں نہیں کی ، اس کے کیا اسباب تھے ۔
سلیمان ابن صرد ابن جون ابن ابی جون خزاعی بزرگان شیعہ اور اصحاب امیر المؤمنین علیہ السلام میں سے تھے ،اور اسی طرح امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے اصحاب میں سے تھے ،ان کی کنیت ابو مطرف تھی زمانہ جاہلیت میں انہیں یسار کہا جاتا تھا پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کا نام سلیمان رکھا ان کی ولادت مکہ میں ہوئی اور اوائل اسلام میں کوفہ منتقل ہو گئے اور 65 قمری ہجری میں 93 سال کی عمر انتقال کر گئے ۔ (1) بعض تاریخ کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ا ن کی ولادت ہجرت سے 28 سال پہلے ہوئی اور اہل سنت کے منابع میں انہیں اصحاب پیامبر لکھا گیا ہے ۔(2) لیکن فضل ابن شاذان نے لکھا ہے کہ یہ تابعین میں سے تھے نہ اصحاب میں سے ۔ (3)
البتہ شیعہ سنی مؤرخان نے انہیں ایک با فضیلت انسان لکھا ہے اور یہ بھی لکھا کہ وہ امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) کے خاص اصحاب میں سے تھے اور ان کے ساتھ مل کر کئی جنگیں بھی لڑیں ۔ (4) اور اسی طرح امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے خط بھی ان کے نام پر آتے تھے۔ (5)
جنگ صفین میں امام (علیہ السلام) کی فوج کا ایک دستہ ان کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے بہت شجاعانہ جنگ کی ۔ (6) جب امام نے رو بارو جنگ کا حکم دیا تو وہ جب مولا کے پاس آئے تو ان کے چہرے پر زخم تھے تب مولا نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «فَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ وَ مِنهُم مَن یَنتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبدیلاً» اور سلیمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ :
تمہارا شمار ان لوگوں میں ہے کہ جو شھادت کے منتظر ہیں اور تم اپنے وعدے سے ہٹو گے نئیں ،اس وقت سلیمان نے کہا :اے امیرالمؤمنین ! اگر تمہارے پاس سچے مددگار ہوتے تو کبھی بھی یہ وقت نہ دیکھتے میں نے کوشش کی کہ ان میں سے کچھ کو نکال دوں لیکن سوائے چند لوگوں کے کوئی نظر نہیں آتا ۔ (7)
عبداللہ بن مسعود نے سلیمان کو خط لکھا کہ تم پر واجب ہے کہ تم جھاد کرو اور امیر المؤمنین کی مدد کرو ۔ (8) بعض نے کہا ہے کہ خط کا یہ جملہ اشارہ کر رہا کہ شاید سلیمان جھاد کے لیے تیار نہیں تھے ۔
اسی طرح انہوں نے جنگ جمل میں بھی شرکت نہیں کی اور مولائے کائنات نے انہیں اس وجہ سے سرزنش بھی کی البتہ اس بات پر بھی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (9)
بلاذری نے اس طرح لکھا ہے کہ :
جب جنگ جمل ختم ہو گئی اور واپسی پر نجران کے علاقے میں سلیمان ابن صرد سے امام علی (علیہ السلام) نے منہ پھیر لیا اور ان سے ملاقات نہیں کی اور بعد میں سرزنش بھی کی اور امام (علیہ السلام ) نے فرمایا:تم کیوں شک میں پڑ گئے تھے جبکہ تم تو میرے مورد اعتماد تھے یہاں پر سلیمان نے عذر خواھی کی اور معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ خالصانہ مدد کروں گا ۔ (10)
بلاذری نے اس طرح کی اور باتیں بھی نقل کی ہیں لیکن بعض علماء شیعہ انہیں نہیں مانتے جیسے آیت الله خویی جیسی شخصیت کہ انہوں نے اس جمل والی روایت کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ایک خاص وجہ کی بنیاد پر شرکت نہیں کی اور مولا نے بھی وہ عذر قبول کیا ہے اور سرزنش کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ (11)
اصل میں سلیمان نے صفین میں جنگ لڑی اور جمل میں شرکت نہیں کی تو اس وجہ سے لوگوں نے مختلف باتیں شروع کردیں اور یہی وجہ بنی کہ روایات میں بھی اختلاف وجود میں آیا۔
ایک اور با سبب بنی وہ یہ کہ جب امام حسن (علیہ السلام ) نے جب معاویہ سے صلح کی تو سلیمان ابن صرد ایک گروہ کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے کیسے آپ نے معاویہ جیسے انسان سے صلح کر لی جبکہ تمہارے پاس تو 40 ہزار سے بھی زیادہ فوج تھی اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ معاویہ کبھی وعدہ وفا نہیں کرے گا پھر ایسا قدم کیوں اٹھایا ،سلیمان کی اس گفتگو کے ساتھ ساتھ مسیب ابن نجبہ نے بھی یہی الفاظ دھرائے ۔
امام حسن (علیہ السلام ) نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ :
تم ہمارے شیعوں میں سے ہو اگر مجھے دنیا سے کوئی غرض ہوتی تو میں ہرگز ایسا نہ کرتا اور کسی دوسرے راستے کو اپناتا اور ہاں میں نے یہ راستہ جو اپنایا ہے وہ اس لیے کہ میں نہیں چاہتا کہ ہزاروں انسانوں کا خون بہے اور نتیجہ بھی کچھ حاصل نہ ہو۔(12)
جب معاویہ کا انتقال ہوتا ہے تو سلیمان نے امام حسین (علیہ السلام ) کو خط لکھا کہ ہم یزید کی بیعت نہیں کریں گے اور آپ کوفہ آئیے اور لوگ بھی سلیمان کے گھر جمع ہوئے اور کہا کہ امام حسین (علیہ السلام) کو دعوت دو ۔(13) سلیمان کے گھر شیعوں کا جمع ہونا اور اس طرح کی دعوت کی بات کرنا بھی خود ایک دلیل ہے کہ سلیمان کی شیعوں کے نزدیک کیا حیثیت تھی ۔ (14)
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سلیمان نے شیعوں سے ایک وعدہ لیا کہ وہ امام (علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور کبھی بھی انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔ (15)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب مسلم کے قیام اور واقعہ کربلا میں سلیمان کہاں تھے ؟
علماء نے مختلف علتیں ذکر کی ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ شیعوں میں سے جو لوگ معروف تھے انہیں ابن زیاد نے زندان میں ڈال دیا تھا تاکہ جناب مسلم کی مدد نہ کر سکیں ۔ (16)کیونکہ ابن زیاد کے زندان میں تقریباً 12 ہزار زندانی فقط اسی لیے قید تھے کہ وہ جناب مسلم کی مدد نہ کریں اور ان میں یہ بزرگان بھی تھے :مختار، سلیمان ابن صرد، مسیب ابن نجبه، رفاعه ابن شداد اور ابراهیم ابن مالک اشتر. (17)
یہی وجہ ہے کہ جب واقعہ کربلا رونما ہوا تو کوئی حاضر نہ ہوا کہ امام حسین (علیہ السلام) کی مدد کو جائے اور دوسری طرف ابن زیاد نے بھی کہہ رکھا تھا کہ جس نے بھی فوج میں شرکت نہ کی اسے معاف نہیں کیا جائے گا ۔ (18)
اور اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ ابن زیاد نے قعقاع ابن زیاد کو حکم دیا کہ جائے اور لوگوں میں دیکھے کون جنگ سے ڈر رہا ہے اور اس نے قبیلہ ہمدان سے ایک شخص کو پیش کیا کہ جس نے کہا میں شرکت نہیں کروں گا تو اسے سب کے سامنے ابن زیاد نے سر قلم کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد کسی کی جرات نہ ہوئی کہ کوئی اس طرح کی بات زبان پر لائے ۔ (19)
یہی وجہ تھی کہ امام حسین (علیہ السلام) نے یزیدی فوج میں اکثر ان لوگوں کو دیکھا کہ جنہوں نے امام (علیہ السلام) کو خط لکھے تھے (20) اور دوسری طرف کوفہ میں اتنی سختی تھی کہ کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ کوفہ سے نکل کر امام (علیہ السلام) کی مدد کو جائے (21) البتہ لوگ قبیلہ کے سرداروں کو اس کا مجرم سمجھتے تھے کہ ان کی سستی کی وجہ سے یہ ماحول بنا ۔ (22) ابن زیاد نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر کوئی امام (علیہ السلام) کی مدد کرے گا تو اسے قتل کر دیا جائے گا اس کے گھر کو جلا دیا جائے گا اس کا مال لے لیا جائے گا ۔(23) حصین ابن نمیر کو حکم دے رکھا تھا کہ ہر طرف سے راستے بند کر دئے جائیں تاکہ کوئی بھی امام (علیہ السلام) کی مدد کے لیے نہ جا سکے ۔ (24) یہاں تک کہ بصرہ کے والی کو بھی لکھ دیا تھا کہ کسی کو بھی وہاں سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے ۔(25) اور اسی طرح حکم دیا کہ شام کے راستے بھی بند کر دئے جائیں اور کسی کو اجازت نہ دی جائے۔(26) یہی وجہ ہے کہ حبیب بن مظاهر قبیلہ بنی اسد کو امام حسین (علیہ السلام) کی مدد کے لیے کہا تو جب وہ مدد کے لیے آئے ابن زیاد کی فوج نے انہیں امام (علیہ السلام) تک نہ پہنچنے دیا ۔ (27)
بعض کا کہنا ہے کہ یہ جواب کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں ایسے لوگ بھی ملتے کہ جنہوں نے خود کو امام (علیہ السلام) تک پہنچایا اور مدد کی، جسکی بہترین مثال حبیب ابن مظاهر اور مسلم ابن عوسجه ہین، کہ وہ کیسے پہنچے ۔ (28)
ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ کسی کو یہ گمان نہیں تھا کہ فرزند رسول کو شھید کرنا ہے ۔(29) حرّ جب روز عاشورا متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ تو امام (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو شرمندگی سے امام (علیہ السلام) کے پاس آتا ہے اور آکے کہتا ہے کہ مجھے گمان نہیں تھا کہ یہ آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ۔ (30)
نتیجه
یہ چند احتمال جو ہم نے ذکر کئے ہیں ان میں سے کوئی ایک احتمال دیا جا سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے سلیمان ابن صرد خضاعی نے جناب مسلم کی مدد نہیں کی یا پھر واقعہ کربلا میں شرکت نہیں کی اور خود کو امام (علیہ السلام) تک نہیں پہنچایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات :
1. محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج 4، ص 292/ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج 2، ص 210-211/ ابن اثیر، اسد الغابة، ج 2، ص 297-298/ ابن حجر عسقلانی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج 3، ص 144.
2. احمد بن حنبل، مسند احمد، ج 4، ص 262/ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج 1، ص 316/ طبرانی، المعجم الکبیر، ج 2، ص 113/ سیوطی، الدر المنثور، ج 4، ص 322.
3. «و من التابعین الکبار و روسائهم وزهادهم» (شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ج 1، ص 286/ اردبیلی، جامع الرواة، ج 1، ص 318).
4. شمس الدین محمد ذهبی، تاریخ الاسلام، ج 5، ص 46.
5. «و کتب الی سلیمان بن صرد و هو بالجبل: ذکرت ما صار فی یدیک من حقوق المسلمین و ان من قبلک و قبلنا فی الحق سواء فاعلمنی ما اجتمع عندک من ذلک فاعط کل ذی حق حقه وابعث الینا بما سوی ذلک لقسمه فیمن قبلنا ان شاء الله». (ابن قتیبه دینوری، الامامة و السیاسة، ج 1، ص 163).
احمد بن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 166.
6. ابی حنیفه دینوری، الاخبار الطوال، ص 171/ نصر بن مزاحم منقری، وقعة صفین، ص 205.
7. نصر بن مزاحم منقری، همان، ص 197/ محمد بن عبدالله اسکافی، المعیار و الموازنه، ص 181.
8. نصر بن مزاحم منقری، وقعة صفین، ص 313.
9. بلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 271/ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 3، ص 105/ ابی بکر عبدالرزاق صنعانی، المصنف، ج 8، ص 717.
10. بلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 273.
11. خویی، معجم رجال الحدیث، ج 8، ص 271.
12. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج 3، ص 197.
13. شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 36/ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 4، ص 261/ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج 2، ص 228/ ابی مخنف، مقتل الحسین (ع)، ص 15.
14. ابی مخنف، مقتل الحسین (ع) ص 262/ ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابه، ج 3، ص 144/ ابن کثیر دمشقی، البدایة و النهایة، ج 8، ص 279.
15. «... فان کنتم تعلمون انکم ناصروه و مجاهدو عدوه فاکتبوا الیه و ان خفتم الوهل و الفشل فلا تغروا الرجل من نفسه. قالوا لا، بل نقاتل عدوه و نقتل انفسنا دونه» (ابی مخنف، مقتل الحسین (ع)، ص 15).
16. درباره ی افرادی، نظیر میثم تمار و عبدالله بن حارث و مختار اتفاق نظر وجود دارد، گر چه میثم پیش از حادثه ی عاشورا به شهادت رسید.
17. محمدرضا مظفر، تاریخ شیعه، ص 77.
18. «فایما رجل وجدناه بعد یومنا هذا متخلفا عن العسکر، برئت من الذم» (ابو حنیفه دینوری، الاخبار الطوال، ص 254-255).
19. مرتضی عسکری، معالم المدرستین، ج 3، ص 83.
20. امام حسین (ع) در روز عاشورا خطاب به لشکریان عمر سعد چنین فرمود: «... یا شبث بی ربعی و یا حجار بن ابجر و یا قیس بن الاشعث و یا یزید بن الحارث الم تکتبوا الی ان قد اینعت الثمار و اخضرت الجنان و طمت الجمام و انما تقدم علی جند لک مجند فا قبل، قالو اله: لم نفعل ...» (ابی مخنف، مقتل الحسین (ع)، ص 118).
21. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 4، ص 263.
22. عریف به معنای نقیب، سرپرست و ناظر امور قبیله و رابط میان قبیله و حکومت است که حاکم از طریق او کنترل قبیله را به عهده دارد و از اخبار قبیله آگاه می شود (ابن اثیر، النهایه فی غریب الحدیث و الاثر، ج 5، ص 101/ ابن منظور، لسان العرب، ج 5، ص 769).
23. وہی، ج 4، ص 267.
24. ابو حنیفه دینوری، الاخبار الطوال، ص 243.
25. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 4، ص 263.
26. وہی، ص 295.
27. بلاذری، انساب الاشراف، ج 3، ص 180/ ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج 5، ص 159.
28. ابن قتیبه دینوری، الامامة و السیاسة، ج 2، ص 7.
29. احمد بن محمد مسکویه، تجارب الامم، ج 2 ، ص 70.
30. ابی مخنف، مقتل الحسین (ع)، ص 121/ شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 99.
Add new comment