اس کالم میں ہم نے یہ کہا کہ ایمان کا حقیقی معنا قلبی تصدیق ہے اور اسی قلبی تصدیق کی بنا پر نیک اعمال انجام دینے کو ہی ایمان کہا جاتا ہے، ایمان کے دو اہم فائدے یہ ہیں کہ انسان کو قلبی تسکین ملتی ہے اور ایمان ہی کے سائے میں انسان کے لئے زمین و آسمان کے برکات و رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک روایت منقول ہے جس میں دو ایسی انسانی صفات کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ جن سے بڑھ کر کوئی اور صفات نہیں۔
روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: «خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ نَفْعُ الْإِخْوَان»
اللہ تعالی پر ایمان رکھنا اور دوستوں کو نفع پہنچانا دو ایسی خصلتیں اور صفات ہیں جن سے بڑھ کر کوئی صفات نہیں ہیں۔
اس حدیث کے وضاحت کے ضمن میں کہنا ضروری ہے کہ جہاں فرمایا ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی اور خصلتیں نہیں ہیں سے مراد یہ ہے کہ ایک پہلو سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ان دو خصلتوں سے بڑھ کر کوئی اور خصلت نہیں پائی جاتی ہے۔
خصلت کا معنا: "الخَصْلة: الفَضِيلة و الرَّذيلة تكون في الإِنسان، و قد غلب على الفضيلة "[1]
خصلت کا مطلب ایسی فضیلت اور رذیلت ہے جو انسان میں پائی جاتی ہو اور یہ لفظ اکثر فضیلت کے معنا میں مستعمل ملتا ہے۔
ایمان سے مراد:
ایمان لغوی اعتبار سے قلبی سکون اور قلبی اطمینان کو کہا جاتا ہے ۔لیکن اہل لغت کے اتفاق رائے کی بناپر اگر ایمان کا لفظ کسی اور لفظ کی طرف نسبت دی جائے تو تصدیق کرنے کے معنی میں آتا ہے۔[2]
احادیث اور روایات میں ایمان عام اور خاص معانی میں مستعمل ملتا ہے۔
عام معنا: یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر قلبی اعتقاد رکھنا۔
خاص معنا: اہل تشیع کی نظر میں عام معنا کے نسبت اس معنا میں کچھ وسعت نظر آتی ہے اس اعتبار سے کہ وہ معتقد ہیں کہ چودہ معصومین (علیہم السلام) پر بھی قلبی اعتقاد رکھنا ایمان کا حصہ ہے۔
اگر اس لفظ کو علم کلام کی اصطلاح کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ اہل سنت کے اشاعرہ مکتب فکراس عقیدہ کو مانتے ہیں کہ ایمان قلبی عمل کو کہا جاتا ہے۔ [3]
۲۔ مرجئہ مکتب فکر کا کہنا ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرا ر ہی کو کہا جاتا ہے۔
۳۔ امامیہ کے بعض علما اور ابوالحسن اشعری اس بات پر متفق ہیں کہ ایمان، معرفت اور پہچان کو کہاجاتا ہے۔[4]
۴۔ معتزلہ [5]، خوارج اور غلات[6] کا کہنا ہے کہ ایمان، واجبات اور مستحبات کو انجام دینا اور محرمات سے بچنے کو کو کہا جاتا ہے۔[7]
۵۔ اسی طرح علامہ حلی[8]، خواجہ نصیر الدین طوسی نے ایمان کو قلبی اعتقاد اور زبانی اقرار کرنے کو بیان کیا ہے۔[9]
۶۔ شیخ مفید، شافعی[10] اور اہل حدیث کے علما نے کہا ہے کہ ایمان کا مطلب، قلبی تصدیق، زبانی اقرار اور اعضا و جوارح کے ساتھ عمل کرنا ہے۔[11]
کیا ایمان اور اسلام ایک ہی معنا میں ہیں : ایمان قلبی تصدیق کو کہا جاتا ہے جبکہ اسلام، اطاعت اور خشوع کے معنا میں مستعمل ہے۔ لیکن علما علم کلام نے ان دونوں کے معنا میں مختلف نظریات بتائے ہیں:
۱۔ ایمان اور اسلام ایک ہیں: یہ نظریہ معتزلی علما،[12]، شیخ طوسی[13]، علامہ طبرسی[14] اور ابوحنیفہ[15] کا ہے۔
۲۔ اسلام، ایمان سے زیادہ عام ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ہر مومن مسلمان ضرور ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر مسلمان ، مومن ہو؛ امامیہ[16] اور اشاعرہ [17] کے مشہور علما اس نظریہ کو مانتے ہیں۔
احادیث معصومین علیہم السلام میں ایمان کے لئے چار بنیادیں بیان کی گئی ہیں؛ جیسے حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہے کہ ایمان کی چار بنیادیں اور جڑیں ہیں: صبر، یقین، عدالت اور جہاد۔ [18]
ایمان کے فوائد:
اب یہاں پر ایک سوال اٹھ سکتا ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے کے کیا فوائد ہوسکتے ہیں:
تو جواب میں یوں کہا جائے گا کہ:اللہ تعالی پر ایمان رکھنے کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ مومن اپنی دنیاوی زندگی میں روحی تسکین پاتا ہے جو آج کل کی سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کی زندگی میں سکون نہیں ہے اور ہر دم، ہر جگہ بنی آدم جسمی سکون کو حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوششیں جاری رکھنے کے باوجود روحی تسکین کو نہیں پا سکتا تو قرآن کریم نے اس مسٗلہ کو بڑی آسانی سے حل کر دیا ہے کہ اگر انسان کو روحی تسکین چاہیے تو ایمان کو اپنے دل میں جگہ دے؛
جہاں فرمایا: هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا[19]
وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے سارے لشکر ہیں اور وہی تمام باتوں کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔ تو اس آیت میں اللہ تعالی نے سکون کو مومنین کے دلوں پر نازل کرنے کو فرمایا ہے ، یعنی جو مومن ہوگا اور اس کے دل میں ایمان کا نور موجود ہوگا اسی کے دل میں سکون نازل کرے گا۔
خداوند متعال نے دوسری جگہ پر یوں فرمایا: " الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"[20] "یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے. " اس آیت میں بھی اللہ تعالی نے بڑی صراحت کے ساتھ فرما رہا ہے کہ اطمینان صرف یادخدا اور ذکر الہی ہی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔
ایمان کا دوسرا فائدہ: دنیاوی برکات
اللہ تعالی سورہ اعراف میں فرماتا ہے: " وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ "[21]
"اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا"
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ایمان لانے اور تقوی اختیار کر لینے کے نتیجے میں انہیں زمینی اور آسمانی نعمتوں سے نوازتے۔
دوسری صفت جو امام علیہ السلام نے بیان فرمائی ایمانی برادران کو فائدہ پہنچانا ہے۔
راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ: " النفع ما یستعان به فی الوصول الی الخیرات" [22] نفع، اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ نیک کاموں کو انجام دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے بہت سارے آثار و برکات بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص اچھا کام کرے در اصل اس نے اپنے لئے وہ کام انجام دیا ہے۔[23] (مطلب یہ ہے کہ اس اچھے کام کا نتیجہ اسی ہی کی طرف پلٹے گا)امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: کسی شخص کا دوسروں سے نیکی اور اچھائی کرنا قیامت کے دن اس کے لئے نورانیت کا باعث بنے گا۔ [24]
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "من حسن بره باهله زید فی عمره" [25]
جو شخص اپنے گھروالوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے اس کی عمر بڑھا دی جاتی ہے۔ اسی طرح دوسروں کی مدد کرنا اور ان سے بھلائی کرنے کے اور بھی آثار و فوائد بتائے گئے ہیں۔
تیجہ: ایمان کا حقیقی معنا قلبی تصدیق ہے اور اسی قلبی تصدیق کی بنا پر نیک اعمال انجام دینے کو ہی ایمان کہا جاتا ہے، ایمان کے دو اہم فائدے یہ ہیں کہ انسان کو قلبی تسکین ملتی ہے اور ایمان ہی کے سائے میں انسان کے لئے زمین و آسمان کے برکات و رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ دوسروں کو نفع پہنچانا قیامت کے دن نورانیت کا باعث، اور اس کے عمل کا نتیجہ اسی دنیا میں اسی ہی کی طرف پلٹتا ہے۔
……………………………………………………………..
حوالہ جات
[1] لسان العرب، ج11، ص:206
[2] کتاب العین، ص40؛ معجم مقاییس اللغة، ج1، ص133 135؛ لسان العرب، ج1، ص163 164؛ اقرب الموارد، ج1، ص73
[3] شرح المقاصد، ج5، ص177؛ مواقف، ج3، ص527؛ شرح تجرید، 393
[4] الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص227؛ ارشاد الطالبین، ص440؛ حق الیقین، ص558 559
[5] ارشاد الطالبین، ص440، 441
[6] المنقذ من التقلید، ج2، ص164؛ مواقف، ج3، ص528؛ شرح تجرید، ص393؛ حقایق الایمان، ص 54
[7] شرح الاصول الخمسة، ص707؛ المنقذ من التقلید، ج2، ص163؛ مواقف، ج3، ص528؛ شرح تجرید، ص393؛ حقایق الایمان، ص54
[8] کشف المراد، ص428
[9] ارشاد الطالبین، ص 441، 440
[10] اصول الدین عند الإمام ابوحنیفة، ص41
[11] الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص227؛ ارشاد الطالبین، ص440؛ حق الیقین، ص558 559
[12] شرح الاصول الخمسة، ص705
[13] التبیان، ج2، ص418
[14] مجمع البیان، ج1، ص420
[15] اصول الدین عند الامام ابوحنیفة، ص435 436
[16] اوائل المقالات، ص54
[17] تمهید الاوائل و تلخیص الدلایل، ص391
[18] نهج البلاغه، حکیمانہ کلمات، 31
[19] سورہ فتح، آیت نمبر 4
[20] سورہ رعد، آیت نمبر 28
[21] سورہ اعراف، آیت نمبر 96
[22] المفردات فی غریب القرآن ، ماده نفع ، ص502
[23] تحفالعقول، ص 299؛ معانیالاخبار، ص 141، باب معنی المکافاه و الشکر، ح 1. خصال شیخ صدوق، ص 258، ح 132
[24] وسائلالشیعه، ج 12، ص 19
[25] بحارالانوار، ج75، ص175
Add new comment