خلاصہ: خانہ کعبہ وہ عمارت ہے جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اس عمارت کی اپمیت اور اس کا احترام، بعثت سے پہلے بھی تھا۔ بعض منقولات کے مطابق ۳ ربیع الثانی کو حجاج نے کعبہ پر حملہ کیا۔ اسی مناسبت یہ مضمون خانہ کعبہ کے متعلق پیچ کیا جارہا ہے۔
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بابرکت عمر کے ۳۵ویں برس میں قدم رکھا۔ قریش نے آپس میں طے کیا کہ خانہ کعبہ کی اچھے انداز میں تعمیر کریں۔قریش کے تمام قبائل نے عزت و وقار کے حصول کی خاطر اس تعمیر کا ایک ایک حصہ اپنے ذمہ لے لیا۔
سب سے پہلے’’ولید‘‘ نے کعبہ کو گرانے کا آغاز کیا، اس کے بعد دوسروں نے ساتھ دینا شروع کیا۔یہاں تک کہ وہ ستون نمودار ہوگئے جسے جناب ابراہیم(علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ہر قبیلے نے اپنے حصے کی تعمیر شروع کی۔ جب دیواریں اس مقدار تک بلند ہو گئیں کہ اس پر ’’حجر اسود‘‘ کو نصب کیا جائے، اس وقت تنصیب کے امر کو لیکرقبیلوں کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اسے نصیب ہو۔
کشیدگی اور اختلاف بڑھتا گیا۔ایک ساتھ کام کرنے والے، ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوگئے۔طرح طرح کی باتیں سامنے آئیں۔اسی طرح چار پانچ راتیں باتوں ہی باتوں میں گزر گئیں۔پھر قریش کے سب سے سن رسیدہ’’ابوامیہ‘‘ نے تجویز دی کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو، اس سے فیصلہ کروایا جائے اور پھر سب اس کو قبول کرلیں اور یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
سب نے یہ بات تسلیم کی اور آنے والے کا انتظار کرنے لگے، اتنے میں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔جب سب کی نگاہیں پیغبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑیں تو سب نے کہا، یہ تو’’امین‘‘ ہیں، ’’محمد‘‘(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، ہم سب انکے فیصلہ کو قبول کریں گے۔
لوگوں نے پیغبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا۔ آنحضرت نے فرمایا ایک چادر لے آؤ۔ چادر لائی گئی۔ آنحضرت نے چادر پھیلائی اور ’حجر اسود‘‘ کو اس میں رکھ دیا اور فرمایا کہ ہر قبیلہ کا سردار اس چادر کا ایک حصہ تھامے تاکہ سبھی کو یہ شرف حاصل ہوجائے۔سرداروں نے ایک ایک گوشہ پکڑ لیا اور حجر اسود کو اسکے نصب کرنے کی جگہ تک لے گئے۔پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھ رہے تھے کہ اگرتنصیب کا کام کسی ایک کے ذمہ کر دیا تو جنگ اورخونریزی شروع ہو جائے گی، اس لئے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے دست مبارک سے ’’حجر اسود ‘‘ کو اٹھا کر اسے اس کی جگہ پر نصب کردیا اور اس طرح سے یہ مسئلہ حل ہوا۔[۱]
نتیجہ: اس واقعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سماج اور معاشرے میں اعلان رسالت سے پہلے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنا بلند مقام حاصل تھا۔ لوگ آپ کا کتنا احترام کرتے تھے اور آپ کتنی خوبصورتی سے مشکل سے مشکل مسائل کو حل کر دیا کرتے تھے۔ آج بھی اگر تمام امت مسلمہ، اپنے عقائد، اعمال اور زندگی کے مسائل میں پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو محور قراد دے اور ان سے توسل کرے تو اس پوری قوم کے تمام مسائل آسانی سے حل ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] سیرۃ ابن ہشام، ج۱، ص ۱۹۲۔۱۹۷، طبع ۱۳۷۵ ھ، بحارالانوار، ج ۱۵، ص ۳۳۷۔ ۴۱۲۔
منبع: کتاب’’ رہبران معصوم‘‘۔
Add new comment