خلاصہ: تواضع اور انکساری ایسی نعمت ہے جس پر کوئی شخص حسد نہیں کرتا، کیونکہ مالدار، طاقتور اور صاحبِ منصب لوگ جو تکبر کا شکار ہوتے ہیں تو وہ تکبر کے ہوتے ہوئے تواضع اور خاکساری کی صفت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے تو تواضع کرنے والے شخص پر بھی حسد نہیں کریں گے، کیونکہ تواضع اور تکبر کا آپس میں ٹکراو ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلتَّواضُعُ نِعمَةٌ لايُحسَدُ عَلَيها[1]"، "انکساری ایسی نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا"۔
تواضع، انکساری کے معنی میں، اخلاقی اقدار میں سے ہے جس پر قرآن، احادیث اور اخلاقی تعلیمات میں تاکید ہوئی ہے۔ تواضع یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان لوگوں سے بہتر اور برتر نہ سمجھے جن کا مقام اس سے کم ہے اور نیز انکساری کے معنی میں یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھے۔[2] تواضع کا لفظ "وضع" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اپنے آپ کو چھوٹا دکھانا ہے، تکبر کے مدمقابل جو اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے۔[3] لفظ تواضع قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا، لیکن ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے تقریباً یہی معنی ہیں، جیسے خشوع[4]، خشیت[5]، اِخبات[6]، ذلت[7] اور خفض جناح[8]۔ تواضع تکبر کی ضد ہے جس سے سخت منع کیا گیا ہے۔نیز سورہ فرقان کی آیت 63 میں جو "عبادالرحمن" کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں، یہ صفت بعض تفاسیر کے مطابق، ہوسکتا ہے لوگوں کے سامنے تواضع کرنے کے معنی میں ہو۔[9] تواضع اور ایمان کے باہمی خاص تعلق سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اصل تواضع، اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے انکساری ہے اور لوگوں کے سامنے انکساری یہاں سے جنم لیتی ہے۔[10] انکساری کی اہمیت اس حکم سے بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنین کے سامنے خفضِ جناح کا حکم دیا ہے، جہاں فرمایا: "وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ[11]"، "اور جو صاحبانِ ایمان آپ کا اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکا دیجئے"۔ نیز واضح رہے کہ تواضع کا مفہوم اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے اور دوسروں کا احترام کرنے کے معنی میں ہے، نہ کہ تواضع یہ ہو کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ذلیل و خوار کردے اور ذلت کو قبول کرلے، کیونکہ تواضع ایسا کام ہے جو انسان اپنی مرضی سے دوسرے میں پائے جانے والے مثبت پہلووں کی وجہ سے اگرچہ اس کے اپنے اندر دوسروں سے زیادہ اچھائیاں پائی جاتی ہوں، لیکن تکبر اور غرور سے بچنے کے لئے اپنے مثبت پہلووں کو نظرانداز کردے اور دوسروں میں پائے جانے والے حتی احتمالی مثبت پہلووں کی وجہ سے ان کے سامنے تواضع اختیار کرے، لیکن ذلت ایسی چیز ہے جو دوسروں کی طرف سے انسان پر زبردستی تھوپی جاتی ہے اور ذلت کو قبول کرنے والے شخص کی توہین اور تحقیر کی جاتی ہے، اگر تواضع ذلت کے ساتھ ہو تو بری صفت ہے۔
اللہ تعالی کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت تواضع اور انکساری ہے۔ عموماً لوگ جو ایک دوسرے پر حسد کرتے ہیں، اللہ تعالی ہی کی عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں ایک دوسرے پر حسد کرتے ہیں، مگر تواضع اور انکساری اخلاقی اقدار میں سے ایسی صفت ہے جس کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلتَّواضُعُ نِعمَةٌ لايُحسَدُ عَلَيها[12]"، "انکساری ایسی نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا"۔ کیونکہ تواضع ایسی صفت ہے کہ ہر شخص اس کے حامل ہونے کی طرف راغب نہیں ہوتا، اس لیے کہ جو دولتمند آدمی ہو وہ تواضع کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے اور اگر طاقتور ہو تو اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے چھوٹا نہیں دیکھنا چاہتا اور تواضع کو طاقت کے منافی سمجھتا ہے کیونکہ اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ طاقت بھی ہو اور تواضع بھی۔ اسی لیے ہرگز مالدار اور طاقور لوگ، تواضع پر حسد نہیں کرتے اور تواضع کرنے والے شخص پر بھی حسد نہیں کرتے۔
تواضع تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب تواضع کرنے والا شخص، منصب، طاقت، مال یا کسی مثبت پہلو کا حامل ہو ورنہ تواضع کرنا بے معنی ہے۔ بنابریں جو لوگ کسی ایسے مقام کے حامل ہوتے ہوئے تواضع اور انکساری کرتے ہیں، ان کو اللہ کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے پاس ایسی نعمت ہے جو مکمل طور پر ان کے لئے منفعت اور فائدہ کا باعث ہے اور حسد کا نقصان ہرگز ان تک نہیں پہنچ سکتا۔
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) نیز دیگر دو حدیثوں میں تواضع اور انکساری کے بارے میں فرماتے ہیں:
"مِن التَّواضُعِ السَّلامُ على كُلِّ مَن تَمُرُّ بهِ، و الجُلوسُ دُونَ شَرَفِ المَجلِسِ[13]"، "تواضع میں سے یہ ہے کہ جس کے پاس سے گزرو اسے سلام کرو اور محفل میں پیچھے بیٹھو"۔
"و مَن تَواضَعَ في الدُّنيا لإخوانِهِ فهُو عِندَ اللّه ِ مِن الصِّدِّيقينَ، و مِن شِيعَةِ عليِّ بنِ أبي طالبٍ عليه السلام حَقّا"[14] ، "جو شخص دنیا میں اپنے بھائیوں سے تواضع کرے وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین (سچوں) میں سے ہے اور علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے حقیقی شیعوں میں سے ہے"۔
نتیجہ: حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کے مطابق تواضع ایسی نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تواضع اور انکساری ایسی اخلاقی صفت ہے جس کا عام حالات میں دنیاوی مقامات سے ٹکراو ہے اسی لیے مالدار، طاقتور اور منصب و مقام والے لوگ تواضع کو اپنے اس مقام کے مطابق نہیں سمجھتے بلکہ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر تواضع کریں تو لوگوں میں ان کا وہ مقام باقی نہیں رہے گا، اسی لیے جو شخص تواضع کرتا ہے، اس پر صاحبِ مقام لوگ حسد بھی نہیں کرتے اور چونکہ حسد میں دوسرے شخص سے اس چیز کا چھِن جانا مقصد ہوتا ہے جس کی وجہ سے حاسد، حسد کرتا ہے تو اگر برفرض تواضع کرنے والے شخص پر حسد کیا بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تواضع کو چھوڑ کر متکبر بن جائے، جبکہ جو حسد کررہا ہے، وہ خود ایک طرح کے تکبر کا شکار ہے اور کیونکہ وہ یہ تو نہیں چاہے گا کہ تواضع کرنے والا شخص بھی تکبر کرے، اس لیے کہ اُس کے اپنے تکبر کا مطلب ہی یہ ہے کہ میں دوسرے شخص سے بہتر و برتر ہوں تو وہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ دوسرا شخص تواضع اور انکساری کو چھوڑ کر تکبر اور غرور کرنے لگ جائے۔ لہذا تواضع ایسی نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا، ہاں تکبر ایسی صفت ہے کہ جس پر حددرجہ حسد کیا جاتا ہے کہ متکبر لوگوں کی کوشش ہی یہی ہوتی ہے کہ میں ایسے کام کروں کہ فلاں متکبر سے بڑھ چڑھ کر اپنی برتری ثابت کروں، جبکہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "التَّواضُعُ يَنشُرُ الفَضيلَةَ، التَّكبُّرُ يُظهِرُ الرَّذيلَةَ"[15]، "تواضع، فضیلت کو پھیلاتا ہے اور تکبر رذیلت کو ظاہر کرتا ہے"، اور حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إنّ الزَّرعَ يَنبُتُ في السَّهلِ و لا يَنبُتُ في الصَّفا؛ فكذلكَ الحِكمَةُ تَعمُرُ في قَلبِ المُتَواضِعِ، و لا تَعمُرُ في قَلبِ المُتَكبِّرِ الجَبّارِ؛ لأنّ اللّه َ جَعلَ التَّواضُعَ آلَةَ العَقلِ ، و جَعَلَ التَّكبُّرَ مِن آلَةِ الجَهلِ"[16]، "بیشک فصل، ہموار زمین پر اگتی ہے اور سخت پتھر پر نہیں اگتی تو حکمت بھی اسی طرح ہے، تواضع کرنے والے شخص کے دل میں آباد ہوتی ہے اور تکبر کرنے والے اور سرکش شخص کے دل میں آباد نہیں ہوتی، کیونکہ بیشک اللہ نے تواضع کو عقل کا اوزار بنایا ہے اور تکبر کو جہل کے اوزار میں سے قرار دیا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] تحف العقول، ص 363.
[2] معراج السعاده، چوتھا باب، پندرہویں صفت۔
[3] بحار الأنوار، مجلسی، ج72، ص118۔
[4] جیسے سورہ مومنون، آیت 2۔
[5] جیسے سورہ فاطر، آیت 28۔
[6] جیسے سورہ ہود، آیت 23۔
[7] جیسے سورہ مائدہ، آیت 54۔
[8] جیسے سورہ شعرا٫، آیت 415۔
[9] تفسیر المیزان، اسی آیت کے ذیل میں۔
[10] مصباح الشریعه، ص 72ـ73۔
[11] سورہ شعرا٫، آیت 215۔
[12] تحف العقول، ص 363.
[13] تحف العقول، ص 362۔
[14] احتجاج، طبرسی، ج 2، ص 267۔
[15] غرر الحكم : 522 ، 523۔
[16] تحف العقول 396۔
Add new comment