خلفاء کے نام پر ائمہ کی اولاد کے نام

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت علی علیہ السلام یا دیگر اماموں کے بیٹوں کے نام خلفاء کے نام پر ہیں ہم نے اپنے اس مقالہ میں اس کی وجہ تحریر کی ہے یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ہو گی۔

خلفاء کے نام پر ائمہ کی اولاد کے نام

     سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ حقیقت بھی ہے یا ایسے ہی اسے شہرت دی جارہی ہے اور یہ بھی کہنا غلط ہے کہ ان کے نام پر رکھے اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات ہی ٹھیک نہیں ہے:
پہلی بات : ابوبکر کنیت ہے نام نہیں، اگر ابوبکر کے نام پر ہی بیٹے کا نام رکھنا تھا تو رکھتے عبدالکعبہ، عتیق، عبداللہ وغیرہ وغیرہ جو ابوبکر کے نام  کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں نہ کہ اس کی کنیت پر۔
دوسری بات : کنیت باپ اپنے بیٹے کےلیے نہیں رکھتا بلکہ جیسے اس کے حالات ہوتے ہیں وہ بیٹا خود انتخاب کرتا تھا۔
اب کیسے کہا جا سکتا ہے کہ علی (علیہ السلام) نے خود اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا؟
کیا علی (علیہ السلام )نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا؟
دوسرے خلیفہ کی عادات میں سے ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی بچے کا نام تبدیل کر دیتے تھے جن میں سے ایک حضرت علی (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام ہے، بلاذری، انساب الاشراف میں کہتا ہے : وكان عمر بن الخطاب سمّى عمر بن عليّ بإسمه[1] ؛ عمر ابن خطاب نے علی کے بیٹے کا نام اپنے نام پر رکھا۔
ذھبی بھی یہی کہتا ہے کہ: ومولده في أيام عمر. فعمر سماه باسمه؛ عمر کی زندگی میں اس کی ولادت ہوئی تو پس عمر نے اپنے نام پر اس کا نام رکھا۔[2]
اور بھی بہت سارے لوگوں کے نام عمر نے تبدیل کیے ہیں مثلا :ابراھیم ابن الحارث ابن عبدالرحمن: عسقلانی کہتا ہے کہ : عبد الرحمن ابن الحارث.... كان أبوه سماه إبراهيم فغيّر عمر اسمه؛ عبدالرحمن ابن حارث کے والد نے اس کا نام ابراہیم رکھا تھا تو عمر نے اس کا نام  بدل دیا ۔[3]
ثعلبة ابن سعد بـ معلي:
وكان إسم المعلى ثعلبة، فسماه عمر ابن الخطاب المعلى؛ معلی کا نام ثعلبہ تھا تو عمر ابن خطاب نے اس کا  نام المعلی رکھا۔[4]
اور ہاں یہ بات بھی غور  طلب ہے کہ عمر صرف خلیفہ کا نام نہیں تھا بلکہ ابن حجر کی کتاب الاصابہ میں 20 افراد جن کا نام عمر تھا، ذکر کیا ہے۔ کیا ان سب کے نام بھی دوسرے خلیفہ کی محبت میں رکھے گئے تھے؟
اب آئیے اس نام کی طرف کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام عثمان تھا:
حقیقت تو یہ ہے کہ عثمان کا نام علی (علیہ السلام) نے رکھا تو تیسرے خلیفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ عثمان ابن مظعون کے نام کی وجہ سے رکھا : فرمایا: إنّما سمّيته بإسم أخي عثمان بن مظعون؛ بے شک اس کا نام میں نے اپنے بھائی عثمان ابن مظعون کے نام پر رکھا ہے۔[5]
صرف خداوند متعال کے نام پر نام نہیں رکھا جا سکتا، اس کے علاوہ  سب کے نام  رکھے جا سکتے ہیں۔ حتی یزید جو شیعیان علی کے نزدیک منفورترین نام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اماموں کے اصحاب میں اس نام کے افراد بھی موجود ہیں مثلا یزید ابن حاتم وغیرہ  وغیرہ حتی امام صادق (علیہ السلام) کے ایک صحابی کا نام شمر ہے تو کیا یہ نام اس لیے ہیں کہ یزید یا شمر اہل بیت(علیھم السلام) یا شیعوں کے نزدیک محبوب ہیں؟ اگر نام ہی محبت کی نشانی تھا تو عمر نے نبی کے نام پر نام رکھنے سے منع کیوں کیا؟ بلکہ حکم دیتے کہ سب اپنے بچوں کے نام صرف نبی پاک کے نام پر رکھیں۔
ابن حجر کہتا ہے کہ: عمر نے اہل کوفہ کو لکھ بھیجا کہ نبی پاک کے نام پر اپنے بچوں کے نام مت رکھو :كتب عمر إلى أهل الكوفة الا تسموا أحدًا باسم نبى۔[6]
عینی اپنی کتاب عمدۃ القاری میں لکھتا ہے کہ : وكان عمر رضي الله تعالى عنه كتب إلى أهل الكوفة لا تسموا أحدا باسم نبي وأمر جماعة بالمدينة بتغيير أسماء أبنائهم المسمين بمحمد ؛عمر نے اہل کوفہ کو لکھا کہ کوئی بھی نبی کے نام پر نام نہ رکھے اور مدینہ کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے بچوں کے ناموں کو محمد کے نام سے بدل دیں۔[7]
شیخ مفید نے امام حسن (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک بیٹے کا نام عمرو کہا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمرو بن عبدوود یا عمرو بن ھشام (ابوجھل ) کے نام کی وجہ سے رکھے گئے ہیں؟
جو بھی تاریخ سے واقفیت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ جزیرۃ العرب میں جب بیٹے کا نام رکھا جاتا تو نام رکھنے میں ماں کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا، اور اکثر اوقات ایک بچے کے کئی نام مشہور ہو جاتے اور بعض اوقات دوسرے نام اتنے مشہور ہو جاتے کہ جو نام باپ رکھتا اس کو بھی تحت الشعاع قرار دے دیتے۔ علی (علیہ السلام) نے مرحب کے سامنے رجز پڑھا تو فرمایا: سمتنی امی حیدرا ۔۔۔میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔ اور پھر عورتیں جب اپنی اولاد کا نام رکھتی ہیں تو زیادہ تر وہ اپنے میکے خاندان اور قبیلہ کو دیکھتی ہیں۔ دوسری طرف سے یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے اماموں نے مختلف قبایل اور خاندانوں سے شادیاں کیں۔ تو وہاں سے آنے والی عورتوں نے جب اپنے بیٹے کے نام رکھے تو ہوسکتا ہے جو نام ماں نے رکھا وہ زیادہ مشہور ہو گیاہو۔
نتیجہ 
اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نام نہ تو خلفاء کی محبت میں رکھے گئے اور نہ ہی ایسا کوئی رواج تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے بات :
[1] البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 297.
[2]  الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 4، ص 134، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
[3] العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
[4] الصحاري العوتبي، أبو المنذر سلمة بن مسلم بن إبراهيم (متوفاي: 511هـ)، الأنساب، ج 1، ص 250.
[5]  الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356)، مقاتل الطالبيين، ج 1، ص 23.
[6] إبن بطال البكري القرطبي، أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 344، تحقيق: أبو تميم ياسر بن إبراهيم، ناشر: مكتبة الرشد - السعودية / الرياض، الطبعة: الثانية، 1423هـ - 2003م.العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 10، ص 572، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
[7] العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 15، ص 39، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 65