خلاصہ: اہل بیت علیہم السلام کی اولاد میں سے بہت سارے ایسے امام زادے ہیں جنہوں نے اہل بیت کی سیرت پر چلتے ہوئے اللہ کے بندوں کی ہدایت کرنے کے لئے اس کرہ ارضی کے مختلف جگہوں پر سفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی۔ جن میں سے ایک جناب موسی مبرقع ہیں جو نویں تاجدار ولایت امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور امام علی النقی علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں۔ 22 ربیع الثانی جو ان کا یوم وفات ہے، کی مناسبت سے ان کی زندگی پر ایک مختصر نظر ڈالی ہے جو اس مقالہ میں بیان ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرجیم
اہل بیت علیہم السلام کی اولاد میں سے بہت سارے ایسے امام زادے ہیں جنہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر چلتے ہوئے اللہ کے بندوں کی ہدایت کرنے کے لئے اس کرہ ارضی کے مختلف جگہوں پر سفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی۔ جن میں سے ایک جناب موسی مبرقع ہیں جو نویں تاجدار ولایت امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند امجد اور امام علی النقی علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ہیں۔ 22 ربیع الثانی ان کا یوم وفات ہے لھذا اسی مناسبت سے اس مقالہ میں ان کی زندگی پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔
آپ کی ولادت اور زندگی کی کچھ سوانح
جناب موسی مبرقع، امام محمد تقی علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور ان کی والدہ محترمہ بی بی سمانہ مغربیہ ہیں جو امام علی نقی علیہ السلام کی بھی والدہ مکرمہ ہیں؛ آپ سنہ 214 ہجری شہر مدینہ میں امام علی نقی علیہ السلام کی پیدائش سے دو سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ اخلاقی اعتبار سے اپنی والدہ گرامی سے بہت زیادہ شبیہ تھے۔[1]
آپ، والد کی شہادت تک مدینہ میں ٹھہرے اور اس کے بعد کوفہ کی جانب روانہ ہوئے، کچھ عرصہ اس شہر میں قیام کیا اور سنہ 256 ہجری میں قم المقدسہ ہی کو اپنی رہائشگاہ بنائی۔[2] قم میں عوام کا آپ کی جلالت و عظمت کو نہ پہچاننے کی وجہ سے وہ کاشان کی جانب چل دیے وہاں کے حاکم عبدالعزیز ابن ابی دلف نے آپ کا بہت احترام کیا اور آپ کو گرانقدر جامے اور سواری دی اور ان کے لئے سرکاری تنخواہ مقرر کی۔[3] کچھ ہی عرصے کے بعد قم کے رہنے والوں کو اپنے کئے ہوئے غلط کام کا احساس ہوا اور ان سے واپس آنے کی التجا کی۔[4]
آپ کی حدیثی اعتبار سے عظمت:
آپ علم حدیث اور درایہ کے اعتبار سے عظیم شخصیت تھے اور عظیم روایوں میں آپ کا شمار کیا جاتا ہے۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں[5]، شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الاختصاص[6] اور ابن شعبہ حرانی نے اپنی شہرت یافتہ کتاب تحف العقول[7] میں آپ سے احادیث نقل کی ہیں۔ آپ کی علمی شخصیت کی عظمت تب ظاہر ہوتی ہے جب معلوم ہو کہ یحیی ابن اکثم جیسے قاضی القضات نے آپ کو خط لکھا اور کئی مسائل کو حل کرنے کے متعلق سوالات کیے۔ [8]
جناب موسی مبرقع کو رضوی سادات کے جد امجد سمجھا جاتا ہے، رضوی سادات آج ایران، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، عراق اور شام میں رہائش پذیر ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب جناب موسی، قم میں تشریف لائے تو ان کی ہمشیرگان زینب، ام محمد اور میمونہ بھی ان کے ساتھ تھیں اور وہ قم ہی میں وفات پائیں اور بی بی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ مدفون ہوئیں۔[9]
آپ کا مزار:
سنہ 950 ہجری میں شاہ تہماسب صفوی کے ہاتھوں آپ کا مزار بنا۔ سادات اور بہت سارے امامزادگان منجملہ جناب موسی مبرقع کی اولاد بھی اسی جگہ پر مدفون ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مزار میں چالیس سیدانیاں، چالیس مرد، اور پچیس بچے مدفون ہیں جو چہل اختران سے مشہور ہے۔
آپ کے متعلق لکھی گئی کتابیں
جناب موسی مبرقع کی بابرکت زندگی پر اب تک دو مستقل کتابیں لکھی جکا چکی ہیں جن کے نام کچھ اسطرح ہیں:
1. البدر المشعشع در احوال ذریۃ موسی مبرقع: جو محدث نوری (رح) نے چودہویں صدی میں لکھی ہے۔
2. ترجمہ موسی المبرقع، جو جناب محمد کجوری طہرانی نے لکھی ہے۔
آپ کی وفات:آپ سنہ 296 ہجری میں شہر مقدس قم میں 22 ربیع الثانی کو انتقال کرگئے اور خیابان آذر محلہ چہل اختران میں سپرد خاک کیے گئے۔[10]
........................................
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، ج50 ص123
[2] تاریخ قم، ص:215
[3] تاریخ قم، ص:215
[4] ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص476/ عطاردی، عزیز الله، مسند الامام الجواد، صص84 و 85.
[5] طوسی، تهذیب الاحکام، ج9، ص355
[6] الاختصاص، ص 91
[7]ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص476
[8] تهذیب الاحکام، ج9 ص355
[9] تاریخ قم، ص 216
[10] تاریخ قم، ص215
Add new comment