رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی پر قنفذ کے تازیانے

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر ظلم کرنے والوں میں سے ایک قنفذ ہے جس نے آپ (سلام اللہ علیہا) پر تازیانے مار کر ظلم کیا، بی بی کی پسلی ٹوٹ گئی اور یہ ظالم، حضرت محسن (علیہ السلام) کی شہادت کا باعث بنا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی پر قنفذ کے تازیانے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ انسانیت کی آغاز سے آج تک ظالموں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری ہے۔ مختلف ادوار  میں زمین کی بلندی و پستی پر ستم کے ایسے پیاسے ابھرتے رہے جو صفحہ دہر پر ظلم و بربریت کے دھبے لگانے میں اس طرح سرفہرست قرار پائے کہ ان کے تشدد کو تحریر کرتے ہی نوکِ قلم کانپ جاتی ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے والے لوگوں نے جب بھی اپنی خواہشات تک پہنچنے میں حق کو رکاوٹ دیکھا تو حق اور حق کے راستے پر چلنے والوں سے ٹکرا گئے، اپنے مقصد کے حصول کے لئے دین کی عظیم اقدار، پائدار بنیادوں اور بےلوث پیشواوں کے حق کو پامال کرنے پر اتر آئے یہاں تک کہ نہ معصوم بچوں کی بے گناہی کو دیکھا اور نہ ہی اللہ کی طرف سے درجہ عصمت پر فائز ہونے والے معصوموں کی عظمت سے شرم کی۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے زمانوں میں کئی سابقہ اقوام نے انسانی لبادہ میں رہ کر اپنی بہیمیت کو آخری کناروں تک فروغ دیا، الہی نمائندگان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور کونسا سا ستم روا نہیں رکھا، یہاں تک کہ انبیائے الہی کو مختلف طریقوں سے قتل کرتے رہے جن کی شہادت کی داستاں سن کر صبر بھی رونے لگا، اور آخری امت نے سیدالمرسلین کی اس بیٹی پر ظلم و ستم ڈھائے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ کی ٹھنڈک تھیں جو امام کی زوجہ اور گیارہ اماموں کی والدہ تھیں، جو نبوت و امامت کو آپس میں ملانے والی مضبوط کڑی تھیں، جو عالمین کی عورتوں کی سردار تھیں، جو بنت رسولؐ بھی تھیں اور نواسہ رسولؐ کو اپنے مطہر وجود میں سموئے ہوئے تھیں، ظالموں نے اس مستور پر ظلم کرنے کو بھی نظرانداز نہ کیا اور ایسا ظلم ڈھایا کہ خاتم الانبیاء کی مظلومہ بیٹی نے جب ان ظالموں کے لئے بددعا کرنا چاہا تو مسجد النبیؐ کے ستون ہل گئے اور بابا کے بعد اتنا گریہ کیا کہ سیدالوصیین نے ان کے لئے "بیت الاحزان" بنایا۔
آل رسولؐ اور گیارہ ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر ظلم کرنے والوں کی فہرست میں ایک شخص، "قنفذ" تھا جس کے تازیانہ مارنے سے بنت رسولؐ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور جناب محسن (علیہ السلام) پیدا ہونے سے پہلے شہید کردیے گئے۔ بعض مآخذ کے مطابق قنفذ، اہل سنت کے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کا غلام تھا۔[1] اور بعض دیگر مآخذ کے مطابق، قنفذ اہل سنت کے پہلے خلیفہ ابوبکر کا غلام تھا۔[2] یہ ایسا شخص ہے جس کا حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی حرمت کو پامال کرنے اور بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تشدد کرنے میں براہ راست عمل دخل ہے۔ وہ سنگدل اور متعصب شخص تھا۔ سلیم ابن قیس ہلالی سے منسوب کتاب میں بیان ہوا ہے کہ جب حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اپنے شوہر اور قنفذ کے درمیان حائل ہوئیں تو قنفذ نے بی بی کو تازیانہ سے مارا، عمر نے بھی پیغام بھیجا کہ اگر فاطمہ تمہارے اور علی کے درمیان رکاوٹ بنیں تو ان (بی بی) کو مارنا۔ قنفذ نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کو گھر کی چوکھٹ کی طرف لے گیا اور دروازہ کو دھکا دیا یہاں تک  کہ بی بی کی ایک پسلی ٹوٹ گئی اور جو بچہ آپ کے بطن میں تھا، ساقط ہوگیا۔[3] مرحوم شیخ مفید (علیہ الرحمہ) نے تحریر فرمایا ہے کہ عمر ابن خطاب نے قنفذ کو حضرت امام علی (علیہ السلام) کے گھر کی طرف بھیجا تاکہ وہ آپ (علیہ السلام) کو بیعت کے لئے مسجد لے آئے اور اگر آنحضرت (علیہ السلام) نے آنے سے پرہیز کی تو گھر کے دروازے پر لکڑیاں اکٹھی کرے۔[4] کتاب الاحتجاج میں نقل ہوا ہے کہ جب حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) حضرت علی (علیہ السلام) کو مسجد لے جانے میں رکاوٹ بنیں تو قنفذ نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کو تازیانہ سے مارا اور جب آپ (سلام اللہ علیہا) گھر کے دروازہ کے پیچھے قرار پائیں تو قنفذ نے دروازے کو دھکا دیا جو آپ (سلام اللہ علیہا) کی پسلی کے ٹوٹنے اور آپ (سلام اللہ علیہا) کے بچہ (محسن ابن علی) کے سقط ہوجانے کا باعث بنا۔[5] دلائل الامامۃ میں نقل ہوا ہے کہ قنفذ نے عمر کے حکم سے تلوار کے غلاف سے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو مارا۔[6] قنفذ نے خلفاء وقت کو جو یہ خدمت کی، خلفاء اس کے بدلہ میں اس کی سیاسی حمایت کرتے تھے اور اس کے بدلہ اس کے لئے کچھ انعامات قرار دیتے تھے۔ عباس بن عبدالمطلب نے حضرت علی (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ آپ کی نظر میں کیا وجہ ہے کہ عمر نے قنفذ سے خراج نہیں لیا جبکہ اپنے سب کارندوں سے خراج لیا؟ "فنظر علي  (علیہ السلام)  إلى من حوله، ثم اغرورقت عيناه، ثم قال : شكر له ضربة ضربها فاطمة بالسوط فماتت وفي عضدها أثره كأنه الدملج[7]"، تو حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے آس پاس دیکھا پھر آپ (علیہ السلام) کی آنکھیں آنسووں سے بھر آئیں، پھر فرمایا: اس ضربت کی خاطر اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے جو اس نے فاطمہ کو تازیانہ سے ماری اور وہ وفات پاگئیں اس حالت میں کہ اس کا نشان ان کے بازو پر تھا جیسے وہ پھوڑا ہو۔[8] مرحوم محدث قمی (علیہ الرحمہ) تحریر فرماتے ہیں کہ محمد ابن جریر طبری شیعہ، معتبر سند کے ساتھ ابوبصیر سے نقل کرتے ہیں کہ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) منگل کے دن، تین جمادی الثانی، گیارہویں ہجری میں وفات پائی اور آپ (سلام اللہ علیہا) کی وفات کی وجہ، عمر ابن خطاب کے غلام قنفذ کی ضربت تھی جو اس نے عمر کے حکم سے تلوار کے غلاف سے آپ (سلام اللہ علیہا) کو ضرب ماری، یہاں تک کہ آپ (سلام اللہ علیہا) کا فرزند محسن ساقط ہوگیا اور یہ مسئلہ، آپ (سلام اللہ علیہا) کی شدید بیماری کا باعث بنا۔[9] نیز عمر کا معاویہ کو خط لکھنا جو اس واقعہ کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے، قابل مطالعہ ہے۔ اس خط کو علامہ مجلسی نے تفصیلی طور کتاب بحارالانوار، ج۸، ص۲۲۲ میں کتاب دلائل الامامۃ، ج۲ سے نقل کیا ہے۔ مرحوم میرحامد حسین ہندی کتاب عبقات الانوار میں کتاب الوافی بالوفیات، مصنفہ صلاح الدین صفدی عالم اہلسنت، سے نقل کرتے ہیں کہ یہ عالم اہلسنت، اہلسنت کے بزرگ عالم نظام کی سوانح حیات میں نقل کرتے ہیں کہ نظام نے کہا: پیغمبر نے واضح کردیا کہ مقام امامت، علی (علیہ السلام) کا ہے اور آنحضرت (علیہ السلام) کو اللہ تعالی کے حکم سے امامت کے لئے متعارف کروایا، یہاں تک کہ سب اصحاب اس بات سے مطلع ہوگئے، لیکن عمر نے اس بات کو ابوبکر کی وجہ سے چھپا لیا۔ پھر وہ اپنی باتوں میں کہتے ہیں: عمر نے ابوبکر سے بیعت کے دن، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے پہلو میں ضرب ماری جس کی وجہ سے فاطمہ کے محسن (علیہماالسلام) ساقط ہوگئے۔ [10] اہل سنت کے مشہور و معروف علامہ، ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے: فتح مکہ (چھٹی ہجری) میں ہبار بن اسودہ نامی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی زینب کو جو محمل میں بیٹھی ہوئی تھی، نیزہ سے ڈرایا اور باعث بنا کہ اس کا بچہ سقط ہوجائے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبار کے خون کا خیال نہ رکھا اور اس کے لئے پھانسی کا حکم دیا۔[11] ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ میں نے یہ روایت اپنے استاد ابوجعفر نقیب کو نقل کی۔ میرے استاد نے کہا: اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہبار کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زینب کو ڈرایا ہے اور وہ اس کے بچہ کے ساقط ہونے کا باعث بنا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہوتے تو اس کا خون بہانا بھی جائز سمجھتے جس نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو ڈرایا تھا یہاں تک کہ آنحضرت کا بچہ ساقط ہوگیا۔[12]
نتیجہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر ظلم کرنے والوں میں سےایک، قنفذ ہے جس نے آنحضرت (سلام اللہ علیہا) پر ظالم ڈھاتے ہوئے پسلی ٹوڑ دی اور محسن (علیہ السلام) کو پیدا ہونے سے پہلے شہید کردیا، حکومت کی طرف سے اس ظالم کو اس ظلم کے بدلہ میں انعام دیا گیا۔ امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا جو اس بات کا دعویدار ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ ہوں، وہ آنحضرتؐ کی بیٹی پر ظلم کرواتا ہے اور ظالم کو اس ظلم کے بدلہ انعام بھی دیتا ہے، کیا یہ مسند خلافت پر بیٹھنے کا حق دار ہے؟ کس کی مسند پر؟ جس پر ظلم کیا اس کے باپ کی مسند پر!! مسلمانوں کے لئے یہیں سے راستہ واضح ہوجاتا ہے اور حق و باطل کی پہچان ہوجاتی ہے کہ کیا انہیں چاہیے کہ ان ظالموں کو اپنا خلیفہ مانیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی کو شہید کیا؟ ابھی بھی وقت ہے باطل کی پیروی کو چھوڑ کر حق کے راستے کو اختیار کرنے کے لئے۔ اس سے بڑھ کر واضح طور پر کیسے حجت تمام ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طبری، دلائل الإمامة، ص134۔
[2] الخصیبی، الهدایة الکبری، ص179۔
[3] كتاب سليم بن قيس - تحقيق اسماعيل الأنصاري زنجاني - ص 153۔
[4] شیخ مفید، الجمل، ص117۔
[5] طبرسی، الإحتجاج، ج1، ص83۔
[6] طبری، دلائل الإمامة، ص134۔
[7] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج30، ص303۔
[8] الدملج، جس کا اوپر ترجمہ پھوڑا کیا گیا، ہوسکتا ہے دست بند (کڑا) کے معنی میں ہو۔
[9] بیت‏الاحزان، شیخ عباس قمی، ص 189،
[10] http://www.erfan.ir/farsi/49618.html
[11] سیره ابن هشام، محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی، ج 2، ص 482۔
[12] شرح نهج ‏البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 14، ص 193۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 54