خلاصہ: اسلام نے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے لئے جن سلیقوں کو سیکھایا ہے ان میں سے ایک سلام کرنا ہے، سلام کرنے کے اہم آداب میں سے یہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کی جائے، اس میں کنجوسی نہ کی جائے اور آپس میں بات چیت کا آغاز سلام سے کرنا چاہئے۔
سلام کرنا ایک نیک عمل ہے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی، ادب و تواضع کی زندہ مثال ہے اور تکبر سے دور ہونے کی ایک نشانی بھی کیونکہ جب کوئی انسان اپنے برابر والے کو سلام کرتا ہے تو گویا وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ اپنے متواضع ہونے کا اعلان کر رہا ہے اور اگر وہی انسان اپنے سے کم سن اور کم حیثیت فرد کو سلام کرے اور اس طریقہ کو اپنا شیوہ بنا لے تو اس کا یہ عمل اس بات کی طرف نشاندہی کرے گا یقینا اس شخص میں بھلے ہی کوئی اور برائی ہو لیکن تکبر جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔روایات میں سلام کرنے کے متعلق کچھ آداب بیان کئے گئے ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے کچھ بیان کررہے ہیں۔
سلام کرنے میں کنجوسی سے بچنا
مغرور اور متکبر انسان اپنے سے کم حیثیت یا کم عمر افراد کو سلام کرنا تو دور کی بات ہے بعض اوقات انھیں دیکھنا اور اپنے پاس جگہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ جبکہ ایسے ظاہری صاحب حیثیت انسان کے لئے امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: " البَخِيْلُ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلامِ " بخیل(کنجوس) وہ ہے جو سلام کرنے میں کنجوسی کرے[۱]۔ ایسے بظاہر مالدار اور صاحب حیثیت، جھوٹی عزت کا دم بھرنے والے افراد کو امام(علیہ السلام) کے اس قول پر بہت غور کرنا چاہئے کہ جس ظاہری اور جھوٹی شان و شوکت کو لیکر وہ اِترا رہے ہیں، در حقیقت وہ محض ایک کنجوس انسان کی نشانی ہے۔
سلام کرنے میں پہل کرنا
یوں تو سلام کرنا اور جواب سلام دینا، دونوں کا اجر مقرر ہے لیکن وہ شخص جو سلام کرنے میں سبقت کرے اور پہلے سلام کرے اس کا اجر، جواب دینے والے کے اجر سے ۶۹ درجہ زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ امام حسین(علیہ السلام) نے فرمایا: " لِلسَّلامِ سَبْعُونَ حَسَنَة ، تِسْعُ وَ سِتُّونَ لِلمُبْتَدِئِ وَ وَاحِدَةٌ لِلرَّادِ " سلام کے لئے ۷۰ نیکیاں ہیں، ۶۹ نیکیاں سلام کرنے والے کے حق میں جاتی ہیں اور ایک نیکی سلام کا جواب دینے والے کے حق میں[۲]۔
گفتگو کرنے سے پہلے سلام کرنا
اسلامی تعلیمات اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جب بھی ہم کسی مومن اور مسلمان سے ملاقات کریں تو اس سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے سلام کریں اور پھر اپنی گفتگو کا آغاز کریں، اس سلسلہ میں روایات کے درمیان ملتا ہے کہ ایک شخص نے امام حسین(علیہ السلام) سے کلام و گفتگو کے آغاز میں کہا: آپ(علیہ السلام) کیسے ہیں؟ خدا آپ کو عافیت کےساتھ رکھے، امام (علیہ السلام) نے فرمایا: کلام و گفتگو سے پہلے سلام ہے، خدا تمہیں بھی عافیت کے ساتھ رکھے اور پھر فرمایا کہ کسی کو گفتگو کی اجازت ہی نہ دو جب تک وہ سلام نہ کر لے[۳]۔
ہمیں اسلام کے چھوٹے چھوٹے تعلیمی گوشوں پر بھی بھر پور توجہ دینا چاہئے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، اسی طرح سے ہم اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو سنوار سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
[۱] تحف العقول، امام حسین(علیہ السلام) کے کلمات کے حصہ میں، ص ۲۴۸۔
[۲]تحف العقول، ص ۲۴۸؛ بحارالانوار، ج ۷۵، ص ۱۲۰ ۔
[۳] (قَالَ لَهُ (الْحُسَيْنُ) عليه السلام رَجُلٌ اِبتِداءً: كَيْفَ اَنْتَ عافاكَ اللّهُ؟ فَقالَ عليه السلام لَهُ: اَلسَّلامُ قَبْلَ الكَلامِ عافاكَ اللّهُ، ثُمَّ قالَ عليه السلام : لاتَأذَنُوا لاِحَدٍ حتّى يُسَلِّمَ)مستدرک الوسائل، ج۸، ص ۳۵۸، تحف العقول، ص ۲۴۶۔
Add new comment