خلاصہ: مدیریت ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں انسان مجبور ہوتا ہے کہ ادارے یا کاروبار یا گھر وغیرہ میں اس کے کندھے پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے یا پھر اس کی دوسری قسم یہ ہے کہ خود انسان کو اس کی دلی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس کی تلاش میں نکلتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے ۔
مدیریت یعنی مینجمنٹ یا انتظامی امور کو سمبھالنے کا فن، اس کے کے لیے دین مبین اسلام نے کچھ اخلاقی نکات ذکر کئے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو مختصر انداز میں بیان کریں گے۔
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ جو بھی مدیر بنتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہدف کو صحیح طریقے سے سمجھے ۔[1]
مدیر کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی مدیریت کو سمجھے کہ اسلام کیا کہتا ہے دین مبین اسلام نے جو تعریف کی ہے کہ وہ یہ ہے کہ انسان اپنی کوششوں کے ذریعے خدا تک پہنچے[2]
یعنی اسلام ہمیں اس چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اپنی ہر ذمہ داری میں خدا کو حاضر و ناظر سمجھے اور پھر اپنے کاموں کو انجام دے اس صورت میں وہ ایک کامیاب مدیر کہلائے گا ۔
اس راستے میں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر کنٹرول رکھے یعنی نفس کے چکر میں آکر کہیں غلط فیصلہ نہ لے بیٹھے ۔[3]
اسی لیے اخلاقی مدیریت کی جو تعریف ہوئی ہے وہ یہ کہ اپنے عہدے اور امور کو انجام دینے میں انسان کو نفسانی ملکہ حاصل ہونا چاہیے یعنی نا حق کام تو دور کی بات بلکہ اسکی فکر یا سوچ بھی نہیں ہونی چاہیے ۔[4]
انسان کو اخلاقی مدیریت کے لیے کچھ اصول بنانے چاہیےکہ جن کے ذریعے وہ اپنا راستہ کھو نہ بیٹھے۔[5]
دین مبین اسلام نے بھی کچھ اخلاقی اصول بتائے ہیں کہ جن کی رعایت ضروری ہے ۔
مدیر کے لیے اخلاقی اصول
1. روح کی قدرت
یہ قدرت تب حاصل ہو سکتی ہےکہ جب انسان عقل کی مدد سے اپنی فکر کو پاک رکھے اور ایک بلند فکر ہو تب اس قدرت تک پہنچ سکتا ہے ۔[6]
ایک اور راستہ بھی بیان ہوا ہے وہ یہ کہ انسان خود ہر حال میں خدا وند متعال سے متصل رکھے ۔[7]
اور اسی طرح انسان کا عقیدہ ہے کہ جس کی وجہ سے یا تو اس قدرت کو حاصل کر لیتا ہے یا پھر برے عقائد کی وجہ اس تک نہیں پہنچ پاتا ۔[8]
ایک مدیر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وسیع القلب ہو ،یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسی (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کی نجات کے لیے جاتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ: «رَبِّ اشْرَحْ لى صَدْرى»[طه، 25]؛خدایا میرے سینے کو گشادہ فرما۔
خداوند متعال نے بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ نعمت یاد دلائی : «الَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ»؛کیا ہم نے تمہارے سینے کو گشادہ نہیں کیا ۔[9]
امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)نے بھی ایک مدیر کے لیے تاکید کی ہے کہ: «مدیریت کے ابزار میں سے اہم یہ ہے کہ وہ وسیع القلب ہو۔ »[10] اس کے بعد فرمایا کہ جو انسان اس طاقت کو نہیں رکھتا وہ: «کسى بھی وقت اپنے ذمہ داری کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو گا ۔» [11]
2.با ضمیرہونا
ہر انسان کے اندر خداوند متعال نے ایک سچا اور قیمتی گوہر رکھا ہے کہ جسے «ضمیر» کہا گیا ہے۔[12] یہ ایک ایسی طاقت ہے کہ جس کوانسان نہ چاہتے ہوئے بھی محسوس کرتا ہے ہاں لیکن جب کوئی اس کا استعمال کرے تو لوگ کہتے ہیں کہ اسکا ضمیر جاگ گیا ہے یا اس طرح کی اور اصطلاحیں ،ہمارا مقصد فقط یہاں اشارہ کرنا تھا کہ باضمیر انسان کو سچا انسان کہاجاتا ہے ۔[13]
ضمیر سے مدد لینا یعنی کام کو دقیق اور سچائی سے انجام دینا ہے ۔[14]
3. منظم ہونا
ایک مدیر کے ضروری ہے کہ وہ منظم ہو یعنی کام کوسر وقت ، ٹھیک اور ترتیب سے انجام دے ۔[15]
اسی طرح قوانین کی رعایت کرنا اور بنائے گئے اصولوں پر چلنا نظم کہلاتا ہے ۔[16]
اور مدیر کو چاہیے کہ دوسروں میں حس پیدا کرے تاکہ وہ اپنے کام کو اہم سمجھیں اور اپنی ذمہ داری پر عمل کریں یعنی انہیں کام کی اہمیت معلوم ہونی چاہیے ۔[17]
4. غفلت
غفلت اور سستی [18] تربیت کے اندر اس کا بھی خاص خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ذرا سی غفلت کی وجہ سے کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے ۔
5. قدرو قیمت
کوئی بھی اگر ایک کام کو انجام دیتا ہے تو اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ اس حوصلہ اور بڑھے گا اور وہ ایک طاقت محسوس کرے گا کہ جس کی وجہ سے اور بھی کام بہتر طریقے سے انجام پائے گا ۔
امام سجاد(علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ : « قیامت کے دن خداوند متعال سوال کرے گا کیا تم نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا ؟ تو انسان جواب دے گا میں نے تمہارا شکر ادا کیا ہے ، خداوندمتعال جواب دے گا کہ تم نے اس کا شکریہ ادا نہیں کیا گویا میرا بھی شکریہ ادا نہیں کیا!اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے فرمایا: «تم میں خدا کا زیادہ شکر ادا کرنے والا وہی ہےکہ جو لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔»[19]
نتیجہ
اس پوری بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ مدیریت کوئی عام کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ جس کے لیےدین مبین اسلام نے کچھ اصول بھی بیان کئے ہیں کہ جن کی رعایت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اپنی ذمداری کو صحیح طریقے سے انجام دے سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات :
[1]. عسکریان، مصطفى، سازمان و مدیریت آموزش و پرورش، ص 91، تهران، امیرکبیر، 1391ش.
[2]. تقوی، سیدرضا، نگرشى بر مدیریت اسلامى، ص 20، قم، سازمان تبلیغات اسلامى، 1368ش؛ پژوهشکده تحقیقات اسلامی، آخوندى، مصطفى، اخلاق مدیریت، ص 15، قم، کوثر غدیر، 1382ش.
[3]. ر.ک: «معنای اخلاق صنفی»، سؤال 49688.
[4]. مرکز تحقیقات اسلامی، الهامى نیا، على اصغر، اخلاق فرماندهى و مدیریت، ص 12، قم.
[5]. اخلاق مدیریت، ص 23.
[6]. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 5، ص 434 – 435، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ اول، 1374ش.
[7]. ر.ک: راغب أصفهانى، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، واژه «شرح»، ص 449، بیروت، دمشق، دار القلم، الدار الشامیة، چاپ اول، 1412ق.
[8]. ر.ک: «تفاوت شرح صدر با شرح قلب»، سؤال 31219.
[9]. شرح، 1: «آیا سینهات را [به نورى از سوى خود] گشاده نکردیم؟».
[10]. «الَةُ الرُّیاسَةِ سِعَةُ الصَّدْرِ»؛ شریف الرضی، محمد بن حسین، نهج البلاغة، محقق، مصحح، صبحی صالح، حکمت 176، ص 501، قم، هجرت، چاپ اول، 1414ق.
[11]. کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ج 1، ص 278، قم، دارالذخائر، چاپ اول، 1410ق.
[12]. ر.ک: «تفاوت وجدان با فطرت»، سؤال ۳۲۳۳۸.
[13]. ر.ک: جعفرى، محمدتقى، وجدان، ص 12 – 13، تهران، انتشارات اسلامى؛ اخلاق مدیریت، ص 38.
[14]. اخلاق مدیریت، ص 39.
[15]. لغتنامه دهخدا، واژه «انضباط»؛ البته با توجه به اینکه وزن «انفعال» در علم صرف به معناى پذیرش اثر فعل است، انضباط به معناى «نظمپذیرى» است.
[16]. اخلاق مدیریت، ص 46.
[17]. ر. ک: کاظمى، بابک، مدیریت امور کارکنان، ص 136 – 138، تهران، مرکز آموزش دولتى، 1370ش.
[18]. ر.ک: «تغافل و اقسام آن»، سؤال 36465.
[19]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 2، ص 99، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق.
Add new comment