خلاصہ: دیگر معصومین (علیہم السلام) کی طرح حضرت امام حسین (علیہ السلام) بھی مختلف مقامات میں اور مختلف حالات میں اللہ کی حمد کرتے رہے، مندرجہ ذیل بعض فقروں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت (علیہم السلام) نے مختلف مقامات پر اللہ کی حمد کی ہے اور اپنے کلام کو اللہ کی حمد سے شروع کیا ہے، اِس مضمون میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے کچھ وہ کلمات نقل کیے جارہے ہیں جن میں آپؑ نے اللہ کی حمد کی ہے:
مروان کے جواب میں: مرحوم بحرانی کی نقل کے مطابق معاویہ نے مروان کو جو حجاز کا حاکم تھا، خط لکھا کہ وہ جناب عبداللہ ابن جعفرؑ سے ان کی بیٹی ام کلثومؑ کی اس کے بیٹے یزید کے لئے منگنی کرے۔ مروان، جناب عبداللہ ابن جعفرؑ کے پاس گیا اور منگنی کے سلسلہ میں بات کی تو جناب عبداللہ ابن جعفرؑ نے فرمایا: ام کلثومؑ کا مجھے اختیار نہیں بلکہ ہمارے سرور حسین (علیہ السلام) کو اختیار حاصل ہے جو اس لڑکی کے ماموں ہیں۔
پھر مقررہ دن کو جب لوگوں کا مسجد میں اجتماع ہوگیا تو مروان نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) سے کچھ باتیں کرتے ہوئے جناب ام کلثومؑ کی منگنی کی تو اس وقت حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: "الْحَمْدُلِلَّهِ الَّذى اخْتارَنا لِنَفْسِهِ، وَارْتَضانا لِدِينِهِ وَاصْطَفانا عَلى خَلْقِهِ، وَ انْزَلَ عَلَيْنا كِتابَهُ وَ وَحْيَهُ، وَ ايْمُ اللَّهِ لا يَنْقُصُنا احَدٌ مِنْ حَقِّنا شَيْئاً إِلَّا انْتَقَصَهُ مِنْ حَقِّهِ، فى عاجِلِ دُنْياهُ وَ آخِرَتِهِ، وَ لا يَكُونُ عَلَيْنا دَوْلَةٌ الّا كانَتْ لَنَا الْعاقِبَةُ وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ"، "ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے لیے اختیار کیا اور ہمیں اپنے دین کے لئے پسند کیا اور ہمیں اپنی مخلوق سے منتخب کیا اور ہم پر اپنی کتاب اور وحی نازل کی اور اللہ کی قسم، کوئی شخص ہمارے حق میں کمی نہیں کرتا مگر اللہ اس کے حق میں سے دنیا اور آخرت میں کمی کردے گا اور کوئی حکومت ہمارے خلاف حکومت نہیں کرتی مگر (نیک) انجام ہمارا ہی ہوگا اور اس کی خبر تمہیں عنقریب پہنچ جائے گی"۔ پھر آپؑ نے اپنے خطبہ کو جاری رکھتے ہوئے، مروان کی ایک ایک بات کا جواب دیا اور اس کی پیشکش اور دعووں کو رد کردیا اور جناب ام کلثوم کا ان کے چچازاد جناب قاسم ابن محمد ابن جعفرؑ سے عقد کردیا۔[1]
مکہ سے روانگی کے موقع پر: جب حضرت امام حسین (علیہ السلام) مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہونے لگے تو کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا: "الْحَمْدُلِلَّهِ ما شاءَ اللَّهُ، وَ لا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ، وَ صَلَّى اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ وسَلَّمَ، خُطَّ الْمَوْتُ عَلى وُلْدِ آدَمَ مَخَطَّ الْقَلادَةِ عَلى جيدِ الْفَتاةِ[2]"، "ساری حمد اللہ کے لئے ہے جو اللہ چاہے (وہی ہوتا ہے) اور اللہ کی قوت کے بغیر کوئی قوت نہیں ہے اور اللہ کی صلوات ہو اس کے رسول پر، موت کا طوق اولادِ آدم (کی گردن میں) اس گردنبند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوں کی گردن میں ہوتا ہے"، اس کے بعد آپؑ نے اپنے خطبہ کو جاری رکھا۔
شب عاشورا کا خطبہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو غروب کے قریب اپنے پاس بلایا، حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں بھی جبکہ مریض تھا، امامؑ کے قریب گیا تا کہ آپؑ کی باتیں سنوں، میں نے سنا کہ میرے باپ اپنے اصحاب سے فرما رہے تھے: "اثْنِي عَلَى اللَّهِ أَحْسَنَ الثَّناءِ، وَ أَحْمَدُهُ عَلَى السَّرَّاءِ وَ الضَّراءِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ عَلى أَنْ أَكْرَمْتَنا بِالنَّبُوَّةِ، وَ عَلَّمْتَنَا الْقُرْآنِ، وَ فَقَّهْتَنا فِى الدِّينِ، وَ جَعَلْتَ لَنا أَسْماعاً وَ أَبْصاراً وَ أَفْئِدَةً، وَ لَمْ تَجْعَلْنا مِنَ الْمُشْرِكينَ[3]"، "اللہ کی ثناء کرتا ہوں بہترین ثناء اور اس کی حمد کرتا ہوں سکون اور دشواری پر، بارالہا میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) نبوت کے ذریعہ عزت دی اور ہمیں قرآن کی تعلیم دی اور ہمیں دین میں فقیہ بنایا اور ہمارے لیے کان اور آنکھیں اور دل قرار دیئے اور ہمیں مشرکین میں سے قرار نہیں دیا"، اس کے بعد آپؑ نے اپنے اصحاب کو مخاطب ہوتے ہوئے اپنے خطبہ کو جاری رکھا۔
صبح عاشورا کا خطبہ: عاشورا کے دن جب دشمن کی فوج نے حملہ کیا تو حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کیا اور بارگاہ الہی میں مناجات کی، اس کے بعد آپؑ دشمن کی فوج کے سامنے تشریف لائے جبکہ آپؑ ان کی کثیر صفوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور آپؑ نے عمر ابن سعد کی طرف دیکھا جو کوفہ کے امراء کے درمیان میں کھڑا تھا، تو فرمایا: "الْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ الدُّنْيا فَجَعَلَها دارَ فَناءٍ وَ زَوالٍ[4]"، "ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے دنیا کو خلق کیا تو اسے فنا اور زوال کا گھر بنایا"، اس جملوں کے بعد آپؑ نے اپنے خطبہ کو مزید جاری رکھا۔
نتیجہ: حضرت سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے مذکورہ بالا مختلف مقامات کے خطبہ میں اللہ کی حمد سے معلوم ہوتا جاتا ہے کہ یہ عظیم ہستیاں چاہے سکون میں ہوں یا دشواری میں اللہ کی حمد و تعریف کرتے ہیں، چاہے ان کو اللہ کچھ عطا فرمائے یا ظالم ان کا حق چھین لیں، ہر حال میں اللہ کی حمد کرتے ہیں، مگر بالکل اللہ کے حکم کے مطابق، ظالم کی سخت مخالفت کرتے ہیں، ایسے دردناک حالات میں اللہ کی حمد کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ حضراتؑ ظالموں کے ظلم و ستم اور غصب و تاراج پر راضی ہیں، بلکہ قضائے الہی پر راضی رہتے ہیں اور ایسے نازک حالات میں بھی اسی طرح اللہ کی حمد کرتے ہیں جیسے زندگی کے عام حالات میں اس ذات کے حامد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] عاشورا ريشهها، انگيزهها، رويدادها، پيامدها، مکارم شیرازی، ص272، 273 سے اقتباس۔
[2] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام، ری شہری، ص504۔
[3] تاريخ طبرى، ج 4، ص 317 و بحارالانوار، ج 44، ص 392- 393، بنقل از عاشورا ريشهها، انگيزهها…، ص390۔
[4] مقتل الحسین علیه السلام، خوارزمی، ج1، ص357۔
Add new comment