خلاصہ؛حضرت سلطان علی ابن محمدباقر(علیہ السلام)کا تعلق خاندان عصمت و طهارت سے ہے ۔
شیخ مفیدنے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی سات اولاد لکھی ہیں: «ابوعبدالله جعفر ابن محمد اور عبدالله که جو ام فروه بنت قاسم ابن محمد ابن ابی بکرتھے اور ابراهیم ، عبیدالله که جو ام حکیم سے تھے اور یہ دونوں امام کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے ،علی اور زینب جو کہ ام ولد سے تھے (ام سلمہ معروف تھیں ام ولد کے نام سے ) ۔ [۱]
اولاد
مصعب زبیری لکھتا ہے : «علی ابن محمد (علیہ السلام) کی ایک بیٹی تھی کہ جس کا نام فاطمہ تھا اور اس سے موسی ابن جعفر ابن محمدباقر (علیہ السلام) نے شادی کی ۔ [۲]
آپ کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام احمد ابن علی ابن محمد باقر(علیہ السلام) تھا کہ جن کی قبر مبارک اصفہان میں موجود ہے۔[۳]
ریاض العلماء لکھتے ہیں : سید آجل سید علی ابن مولانا امام محمدباقر (علیہ السلام) بڑی عظمت و شان کے مالک ہیں وہ کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں اور آج بھی لوگ مسلسل کرامات کو دیکھ رہے ہیں ۔[۴]
ایران ہجرت
اهل بیت(علیھم السلام) کے چاہنے والوں نے چهل حصاران اور فین کاشان سے کچھ خط امام محمدباقر (علیه السلام) کی خدمت میں پیش کیے اور عرض کی کہ اپنی اولاد میں کسی کو ہمارے پاس بھیجیں تاکہ ہم ان سے علمی استفادہ کر سکیں ۔[۵]
امام (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے جعفر صادق (علیہ السلام) سےکہا کہ اپنے بھائی علی کے لیے سفر کا سامان مہیا کرو اور اسے کاشان کی طرف روانہ کرو تاکہ وہاں کے لوگوں کو احکام الہی سے آشنا کرے ۔[۶]
جب آ پ فین کاشان پہنچے تو ۶ ہزار لوگوں نے استقبال کیا اور نے جاسب اور خاوہ کے مقام پر تبلیغی کام انجام دئے وہ جگہ آج جامع مسجد کے نام سے معروف ہے کاشان کی جامع مسجد وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ نماز جمعہ اور باقی خدمات انجام دیتے تھے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ان کی وجہ سے یہاں بہت کرامات دیکھی ہیں ۔[۷]
آپ خطوں کے ذریعے اپنے بابا سے رابطے میں تھے لیکن پردیس میں ۱۱۴ ہجری میں اپنے بابا کے شھید ہونے کی خبر سنتے ہیں ۔[۸]
تدفین
بابا کی شھادت کے تین سال بعد دشمنوں نے آپ کو بھی چین نہ جینے دیا دشمنوں کی ایک بڑی تعداد نے ۲۷ جمادی الثانی کو آپ کو بھی شھید کر دیا ۔[۹]
کاشان کے مغربی علاقے میں ایک جگہ کہ جس کا نام مشھد اردھال ہے وہاں پر آپ کی مزار ہے ۔[۱۰][۱۱] اس جگہ کا پہلے تو کوئی اور نام تھا لیکن آپ کی شھادت کے بعد مشھد اردھال پایا۔[۱۰]
وصیت
آپ نے اپنے کے ایک دوست کو آخری وقت وصیت کی کہ جس کا نام خواجہ ملک شاہ دید تھا اسے فرمایا:
اے میرے دوست ! میری کچھ وصیتیں ہیں :
میرا بھائی (سلطان محمود) دشمنوں کے ڈر سے عبدالکریم کے گھر چھپا ہوا ہے اسے کسی طریقے سے چہل حصاران اور فین کے لوگوں تک پہنچاؤ تاکہ کوئی صدمہ نہ دیکھے ۔
ایک خط میرے بھائی امام صادق (علیہ السلام)کو لکھو اور انہیں اس پوری داستان سے آگاہ کرواور لکھو کہ آپ کے بھائی نے کہا کہ دشمنوں نے فرصت نہیں دی کہ ایک مرتبہ بھی بھائی کا دیدار کر سکوں ۔
فین اور چہل حصاران کے لوگوں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میری قبر اسی جگہ بنائیں کہ جہاں میں نے بتایا تھا ۔[۱۲]
کرامات
آپ کی کرامات میں سے جو مشھور ہے وہ یہ ہے :
ایک معتبر شخص کہ جو کاشان کے رہنے والے تھے انہیں کینسر کی بیماری لاحق ہو گئی طبیب نے جواب دے دیا تو وہ مشھد اردھال کی طرف آتے ہیں آکر دعا کرتے ہیں اور دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ آج رات ادھر ہی رہ جاؤں جب رات ہوئی تو خواب میں دیکھا کہ آواز آئی کہ اٹھو حضرت سلطان علی آرہے ہیں جیسے ہی انہیں دیکھا تو میں کانپنے لگ گیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ناامید نہ ہوا کرو اور اپنی نماز زیادہ پر توجہ کرو اور نماز کو زیادہ اہمیت دو یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور میں ایک دم اٹھا تو دیکھا اب کوئی مریضی نہیں ہے۔[۱۳]
سرداب
حضرت سلطان علی کے مزار کے نیچے ایک سرداب ہے کہ جس کا طول ۶ میٹر اور عرض ۳ میٹر اور ارتفاع ۵/۳ میٹر ہے اس سرداب کے بارے میں بہت سی باتیں مشھور تھیں ہر انسان اپنے اعتبار سے باتیں کرتا ہے لیکن ۱۳۱۳ شمسی میں قم کا حکمران مشھد اردھال آتا ہے ہے اور حکم دیتا ہے اس سرداب کو ایک طرف سے کھولیں اور میں خود دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس میں کیا ہے جب یہ حکمران اندر گیا تو تقریباً ۱۰۰ تابوت اس سرداب میں دیکھے اور ان کے ساتھ ایک تختی دیکھی کہ جس پر لکھا تھا کہ یہ تابوت حضرت سلطان علی کے چاہنے والوں کے ہیں حکمران کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ ان تابوتوں میں میت ایسے تھے کہ جیسے ابھی ابھی انہیں سلایا گیا ہو ۔[۱۴]
اور ۱۳۴۱ شمسی میں آیت الله مرعشی نجفی خود اس سرداب کو دیکھنے گئے اور انہوں نے بھی ان ۱۰۰ تابوت کی تصدیق کی ہے ۔[۱۵]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:
۱۔ شیخ مفید، الارشاد، ص۳۹۴
۲۔ زبیری، نسب قریش، به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۸/المشاهد العتره الطاهره، ص ۲۷۰.
۳۔ حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۶/مجموعه تاریخی مذهبی مشهد اردهال، ص۳۶.
۴۔ به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۳
۵۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، حسین فرّخ یار، ص۳۷.
۶۔ نور باقر، ص۵۴.
۷۔ نور باقر، ص۵۷.
۸۔ توفیق، شهید اردهال، ص۴۰.
۹۔ توفیق، شهید اردهال، ص۳۷–۴۴.
۱۰۔ نقض، عبدالجلیل قزوینی، ص199
۱۱۔ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ص۱۳۳۰
۱۲۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، ص۵۷.
۱۳۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، ص۱۶۶.
۱۴۔ شهید اردهال، ص۴۶
۱۵۔ نور باقر، ص۹۳.
Add new comment