خلاصہ: بعض لوگ جو قیامت کا انکار کرتے ہیں وہ اس کی سختی اور خوف کی وجہ سے ہے۔ جو شخص خدا کی بے انتھا قدرت کا قائل ہوتا ہے وہ کبھی بھی قیامت کا انکار نہیں کرسکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قیامت یعنی ہر چیز کا اپنے مقصد اور انتھا کی طرف پلٹنا۔ جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ[سورۂ اعراف، آیت:۲۹] جس طرح تمہاری ابتدا کی ہے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جاؤ گے»۔
بعض لوگ قیامت کو ایک ناممکن چیز سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ قیامت یعنی دنیا کو چھوڑ دینا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ قیامت یعنی دنیا کو آخرت پر قربان کردینا، حالانکہ دین اسلام نے نہ صرف دنیا میں خوش رہنے کے لئے منع نہیں کیا بلکہ آیات اور روایات میں دنیا میں زندگی کو خوشی کے ساتھ گزارنے کی بہت زیادہ تأکید بھی کی گئی ہے۔ امربالمعروف، نھی عن المنکر، حجاب، پردہ، زکات، انفاق، وعدہ کا وفا کرنا،۔۔۔ یہ سب احکام، انسان کو اچھی طریقہ سے زندگی گذارنے کے لئے بنائے گئے ہیں، جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ[سورۂ بقره، آیت:۲۰۱و۲۰۲] اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہّنم سے محفوظ فرما یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصّہ ہے اور خدا بہت جلد حساب کرنے والاہے»۔
ان دو آیتوں میں خداوند متعال نے یہ فرمایا ہے کہ دعا کس طرح کرنا چاہئے، دعا کرنے کے لئے کوئی قید نہیں لگائی کہ دعا آخرت کے لئے کرنا چاہئے یا دنیا کے لئے، اگر اسلام دنیا کو چھوڑنے کے بارے میں حکم دیتا تو کبھی بھی اس کے بارے میں دعا کرنے کا حکم نہ دیتا۔
ہم کو چاہئے کہ ہم دنیا کو صحیح طریقہ سے پہچانے، اسلام نے دنیا کو آخرت کے لئے ایک گذرگاہ قرار دیا ہے، جس کے بارے میں حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے: «الدُّنْیا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ[۱] دنیا آخرت کے کھیتی ہے»، اس دنیا کو آخرت کے لئے ایک کھیتی قرار دیا گیا ہے، یعنی اسی کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو جھنمی یا جنتی بنا سکتا ہے، یعنی جنت میں جانے کا واحد راستہ یہی دنیا ہے، جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرمارہا ہے:: «فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ[سو رۂ زلزلۃ، آیت: ۷و۸] پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا»۔
اس آیت کے ذریعہ یہ بات واضح ہے کہ انسان اسی دنیا میں اپنے نیک اور بد اعمال کی وجہ سے جنت یا جھنم کو حاصل کرنے والا ہے۔
قیامت پر عقیدہ کے ذریعہ انسان پر بہت زیادہ آثار مترتب ہوتے ہیں۔ اسلام قیامت کے اعتقاد کو انسان کے حیاتی ارکان میں سے ایک رکن قرار دیتا ہے، جس کے بغیر حقیقی انسان کی شکل ایک بے روح جسم کے مانند ہے۔
قیامت پر ایمان کے اثرات میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح ہمیشہ اس ایمان سے زندہ رہتی ہے، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی مظلومیت یا محرومیت سے دوچار ہوا ہے، تو ایک دن آنے والا ہے جب انتقام لیا جائے گا اور اس کا حق اسے واپس ملے گا اور وہ جو بھی نیک کام انجام دے گا ایک دن اس کی بہترین صورت میں تجلیل و تعظیم کی جائے گی۔
اور انسان کے فردی اور اجتماعی اعمال میں اس کا اثر اس طرح ہے کہ جو انسان قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے اعمال ہمیشہ تحت نظر ہیں، اور اس کے عمل کا ظاہر اور باطن ہمیشہ خداوند متعال کے سامنے موجود ہے۔
نتیجہ:
ایک دن آنے والا ہے جب پوری دقت سے انسان کا حساب و کتاب کیا جائے گا۔ اور یہ عقیدہ انسان میں ایک ایسا کام انجام دیتا ہے جو ہزاروں مخفی مامورین سے انجام نہیں پا سکتا ہے، کیونکہ وہ سب باہر سے کام کرتے ہیں اور یہ ایک داخلی چوکی دار ہے جس سے کوئی راز چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔
.................
حوالہ:
[۱] بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۶۷، ص۲۲۵، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
Add new comment