خلاصہ:سيّد محمّد کی کنیت ابوجعفر اور آپ امام هادى (عليه السلام) کے بڑے بیٹے ہیں سید محمد مشھور و معروف تھے سبع الدجیل کے نام سے یعنی شیر مرد دجیل، آپ ایک عظیم الشان شخصیت معروف تھے ۔
شیعوں کا گمان تھا کہ امامت سید محمد کے کندھے پے آئے گی کیونکہ بڑے بیٹے تھے اور اس کے علاوہ لوگوں نے جب ان کے اندر اخلاقی کمالات کو دیکھا تو اور بھی متمئن ہو چکے تھے کہ یہی امام بنیں گے لیکن موت نے اجازت نہ دی امام ہادی (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے۔
سید محمد کی ولادت مدینہ میں ہوئی آپ کے بابا کو عباسی خلیفہ نے سامرا ء جانے کے لیے مجبور کر دیا سید محمد ابھی بہت چھوٹے تھے کہ انہیں امام مدینہ میں ہی چھوڑ گئے جیسے سفر کے قابل ہوئے تو اپنے بابا سے جا ملے جب وہاں کے حالات دیکھے تو ارادہ کیا کہ مدینہ واپس چلے جائیں جب مدینہ کا سفر شروع کیا تو راستے میں بلد کے مقام پر شدید مریض ہوگئے اور وہیں پر ہی انتقال کر گئے اور آج آپ کی مزار بھی بلد ہی میں واقع ہے ۔[1]
آپ کی عمر جو ہے وہ تقریباً 20 سال لکھی گئی ہے اور بلد میں اس وقت کے لوگوں نے ایک مزار تیار کی تھی اور ایک گنبد بھی بنایا تھا لیکن بعد میں حضرت آيت اللّه العظمى ميرزا محمد حسن شيرازى نے ایک عظیم الشان مقبرہ بنوایا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ یعنی تقریباً آدھا قرن بعد حاج آقا محمد قمى جو کے بیٹے تھے آيت اللّه حاج آقا حسين طباطبايى قمى کے انہوں نے دوبارہ بڑا گنبد بنانے کا حکم صادر کیا اور ان کی مزار کے ساتھ ایک برا صحن بھی بنوایا اور آج جو آپ لوگ دیکھتے ہیں یہ وہی حاج آقا محمد قمى کا بنوایا ہوا ہے یہ مزار بغداد سے شمال جاتے ہوئے راستے میں آتی ہے اور بغداد سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔[2]
اس مزار پر آپ کو ہر مذھب اور ہر قسم کے لوگ نظر آئیں گے شیعہ مذھب کے مجتھدین، علماء، محدثین اور مؤمنین کثیر تعداد میں نظر آئیں گے اور اس مزار پر معجزات اور کرامات کو بھی دیکھا گیا ہے جلیل القدر عالم میرزا محمد تہرانی اور اسی طرح علامہ شیخ محمد علی اردوبادی نے ان کرامات اور معجزات پر کتابیں بھی لکھی ہیں کیونکہ ان دو بزرگوار کے خود اپنے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے ان کے تمام معجزات کو لکھا ۔[3]
یہ ایسی شخصیت ہیں کہ نہ فقط شیعہ بلکہ اہل سنت بھی ان کی مزار پر آتے ہیں اپنی مرادیں پائی ہیں اسکی ایک وجہ یہ ہے اس مزار پر مشھور ہے کہ کوئی بھی جوٹھی قسم نہیں کھا سکتا اس پورے علاقے میں اگر کوئی کہے سید محمد پر جا کے قسم کھاؤ گے تو دوسرا فورا پیچھے ہٹ جاتا ہے وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جوٹھی قسم کھانے سے اسی وقت سزا ملتی ہے ۔[4]
شيخ كلينى کا کہنا ہے کہ جب سید محمد امام ہادی (علیہ السلام ) کے بڑے بیٹے کا انتقال ہوتا ہے تو بنی ہاشم کا ایک گروہ تسلیت پیش کرنے کے لیے امام ہادی (علیہ السلام) کے گھر جاتے ہیں تو کیا دیکھا کہ صحن میں 150 آدمی کہ جو آل ابی طالب میں سے ہیں وہ سب امام کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک مرتبہ امام حسن (علیہ السلام) گھر میں داخل ہوئے اور ان کا گریبان چاک تھا آئے اور امام ہادی (علیہ السلام) کو تسلیت پیش کرتے ہیں اس بعد امام ہادی (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو مخاطب ہو کر کہا :
«يا بُنَىَّ احْدِثْ للَّهِ شُكْراً فَقَدْ احْدَثَ فيكَ امْراً»[5]
بیٹا ! خدا کا شکر بجا لاؤ کیونکہ اس نے حق تمہارے لیے حکم کیا ہے ۔
اس روایت کے الفاظ مختلف اعتبار سے بیان ہوئے ہیں لیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے ۔[6]
یہ روایت در حقیقت ہمیں سید محمد کا مقام و منزلت بیان کر رہی ہے اور یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ لوگ کیونکہ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کو امام ہادی (علیہ السلام) کے بعد اپنا امام مانتے تھے جب انتقال ہوتا ہے تو لوگوں کے سامنے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے امام کوئی اور ہیں ۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:
[1] سامرا اور بغداد کے درمیان ۔
[2] المجدى: 130، مراقد المعارف: 2/ 262.
[3] الامام الهادى من المهد الى اللحد، ص 137.
[4] النجم الثّاقب، ص 114.
[5] كافى، ج 1، ص 326.
[6] كافى، ج 1، ص 326.
[7] على رفيعى، تاريخ زندگانى امام هادى(ع)، ص: 14.
Add new comment