خلاصہ: حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) ایسی عظیم شخصیت ہیں جن تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کا سلسلہ نسب پہنچتا ہے۔ آپؑ دین حنیف پر تھے، موحد اور معرفت پروردگار کے حامل تھے، آپؑ کے تاریخی کارنامے دین کی حفاظت اور توحید شناسی پر بہترین دلیل ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نسب: حضرت عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف (علیہم السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا، قبیلہ قریش کی بڑی شخصیت اور شہر مکہ کے بزرگوں میں سے تھے۔ حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) یثرب میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں مکہ میں تشریف لائے اور وہاں پر سرور و آقا قرار پائے۔ حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) قبیلہ قریش میں سے تھے اور حضرت ہاشم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے جن سے بنی ہاشم منسوب ہیں۔ آپؑ کا نسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔ آپؑ کی والدہ سلمی، عمرو کی بیٹی بنی نجار خزرج کے قبیلہ میں سے تھیں۔ یہ گھرانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، آپؐ کے اصحاب میں سے بن گئے۔ ائمہ اطہار (علیہم السلام) اور طالبیان (بنی علی، بنی جعفر اور بنی عقیل) کا نسب حضرت ابوطالب ابن عبدالمطلب (علیہماالسلام) تک پہنچتا ہے۔
نام اور کنیت: حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کا نام شیبہ اور کنیت ابوالحارث تھا[1] اور آپؑ کے دیگر نام اور القاب بھی بتائے گئے ہیں: عامر، سید البطحاء، ساقی الحجیج، ساقی الغیث، غیث الوری فی العام الجدب، أبو السادة العشره، عبد المطّلب، حافر زمزم[2]، ابراهیم ثانی [3]اور فیّاض۔
عبدالمطلب کے لقب سے آپؑ کی شہرت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرت ہاشم (علیہ السلام)کی وفات سے چند سال پہلے، مطّلبؑ (عبدالمطلبؑ کے چچا) آپؑ کو یثرب سے مکہ لائے۔[4] جب مکہ کے لوگوں اور قریش نے جناب عبدالمطلب (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ مطٌلبؑ کے ساتھ شہر میں داخل ہورہے ہیں، اس گمان سے کہ وہ یثرب میں سے مطّلبؑ کے خریدے ہوئے غلام ہیں، انہیں عبدالمطلب کہنے لگے اور یہ نام بعد میں ایسی طرح باقی رہا۔[5]
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کا ایمان: حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین حنیف پر تھے، موحد تھے اور بت کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپؑ نے اپنی ساری زندگی میں احد و واحد اللہ کے بغیر کسی کی عبادت نہ کی اور بت پرستی اور گمراہی کے تاریک زمانہ میں پختہ ایمان کے ساتھ اپنے دین کو محفوظ کیا۔
مکہ میں منصب داری: عبدالمطلب (علیہ السلام) اپنے چچا کی وفات کے بعد اپنے خاندان کے موروثی مناصب کے وارث بنے۔ عبدالمطلب (علیہ السلام) حُسن تدبیر اور اپنی کرامات کی وجہ سے مکہ میں لوگوں کی نظر میں ہردل عزیز قرار پائے اور قریش نے آپؑ کو سردار کے طور پر قبول کیا۔
حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کی شخصیت: تاریخ نویس یعقوبی کا کہنا ہے کہ عبدالمطلب اس زمانہ میں قریش کے سردار تھے اور ان کا کوئی مدمقابل نہیں تھا کیونکہ اللہ نے اس جیسی بزرگواری کسی کو نہیں دی، اور ان کو زمرم کے کنویں (مکہ میں) اور ذوالہرم (طائف میں) سے سیراب کیا، قریش نے اپنے مال کے بارے میں آپؑ سے فیصلہ کروایا اور قحطی اور بھوک کے دور میں لوگوں کو کھانا کھلایا یہاں تک کہ پہاڑوں کے پرندوں نے بھی اس میں سے کھایا۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا ہے:
و نطعم حتّی یأکل الطیر فضلنا إذا جعلت أیدی المفیضین ترعد
ترجمہ: "جب سخی کنجوسی کرتے ہیں، ہم لوگوں کو اتنا کھانا کھلاتے ہیں کہ پرندے بھی ہمارے کھانے کے اضافہ میں سے کھاتے ہیں"۔
حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) بتوں کی عبادت سے دور تھے اور اللہ کو واحد جانتے تھے اور نذر کو پورا کرتے تھے اور ایسی سنتیں قرار دیں کہ ان میں سے بعض قرآن میں نازل ہوئیں۔[6]
یعقوبی نے اپنی سند کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اللہ میرے جد عبدالمطلب کو اکیلے انبیاء کی صورت میں اور بادشاہوں کی ہیبت میں محشور کرے گا۔[7]
اصحاب فیل: تاریخی روایات کی بنا پر، ابرہہ کا مکہ پر حملہ کا واقعہ جو اصحاب فیل کے حملہ کے نام سے معروف ہے، حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کے زمانے میں رونما ہوا۔ ابرہہ نے یمن سے کعبہ کی تخریب کے لئے مکہ پر حملہ کیا۔ ابرہہ کے لشکر نے قریش کے اونٹوں کو چرا لیا۔ حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) اور ابرہہ کی آپس میں ملاقات ہوئی۔ حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) نے صرف اپنے اونٹوں کی رہائی طلب کی تو ابرہہ نے کہا: میں سمجھتا تھا کہ تم کعبہ کے بارے میں بات چیت کرنے کے لئے آئے ہو، جناب عبدالمطلب (علیہ السلام) نے فرمایا: "میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا" ۔
پھر آپؑ مکہ واپس چلے گئے اور مکہ کے لوگوں کو حکم دیا کہ پہاڑوں پر جائیں اور اپنا مال بھی ساتھ لے جائیں۔ دوسرے دن پرندوں کی کثیر تعداد نے ابرہہ کے لشکر پر حملہ کیا۔ اس حملہ میں سپاہیوں کی قلیل تعداد زندہ رہی اور بھاگ گئی۔
زمزم کو دوبارہ کھودنا: مکہ کے تاریخی منابع کے مطابق جناب قُصَی ابن کِلابؑ (حضرت عبدالمطلبؑ کے جد) کے غلبہ سے پہلے قبیلہ جُرہُم کی شہر مکہ پر حکومت تھی۔ اس قبیلہ کے لوگوں کا ظلم باعث بنا کہ دوسرے قبائل ان کے خلاف قیام کریں۔ آخرکار قبیلہ خُزاعہ نے ایک جنگ میں جرہمیوں کو شکست دے دی۔ جرہم کا آخری حاکم عمر ابن حارث، کعبہ کے مال کو محفوظ رکھنے کے لئے خانہ کعبہ کے اندر گیا اور لوگ جو جواہرات اور قیمتی چیزیں کعبہ کے لئے تھے ، اس نے ان کو زمزم کے کنویں میں ڈال دیا اور کنویں کو مٹی سے بھر کر چھپا دیا۔ کئی سالوں کے بعد، حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) نے اس کنویں کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ کہا گیا ہے کہ آپؑ نے خواب میں کنویں کی جگہ ڈھونڈ لی اور اس کو کھودنے کی آپؑ پر ذمہ داری عائد کی گئی۔ آپؑ نے زمزم کو کھودا اور جواہرات کو ڈھونڈ لیا اور کعبہ پر خرچ کیے اور زمزم کا کنواں دوبارہ پانی سے بھرآیا۔
نتیجہ: حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) یثرب میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں مکہ میں تشریف لائے اور وہاں پر سرور و آقا قرار پائے۔ آپؑ حضرت سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا ہیں۔ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کا سلسلہ نسب آپؑ تک پہنچتا ہے۔ آپؑ ایسی عظیم شخصیت ہیں جو ہردل عزیز اور محبوب تھے۔ مکہ پر ابرہہ کے زیرسرپرستی اصحاب فیل کا حملہ آپؑ کی سیادت کے دور میں رونما ہوا، آپؑ دین حنیف پر رہے، آپؑ نے ہرگز بتوں کی عبادت نہ کی اور ساری زندگی اللہ کی وحدانیت کے معتقد رہے، آپؑ کے ایمان اور معرفت پروردگار کی ایک جھلک ابرہہ کو جواب دیتے ہوئے ظاہر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج1، ص27.
[2] بحارالانوار، ج15، ص128۔
[3]تاریخ یعقوبی، ج2، ص11۔
[4] تاریخ الطبری/ترجمه، ج3، ص802.
[5] زندگانی محمد (ص)، رسولی محلاتی، ج1، ص91.
[6] ترجمه تاریخ یعقوبی، ج1، ص363.
[7] ترجمه تاریخ یعقوبی، ج1، ص363.
Add new comment