خلاصہ: امام محمد تقی (علیہ السلام) وہ امام ہیں جو نہایت ہی کمسنی کے عالم میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ان کی کمسنی کی وجہ سے بہت سے ظاہربین افراد انکی امامت کے سلسلہ میں شک و تردید میں مبتلا ہوئے۔
بعض لوگوں کی غفلت اور عقل سے انحراف نے انہیں اس مقام پر لا کر کے کھڑا کیا کہ وہ آکر ہمارے بعض ائمہ کی امامت پر صرف اس لئے اعتراض کریں کہ انھیں کمسنی اور بچپنے کے عالم میں مرتبۂ امامت ملا جبکہ قرآن مجید کی کئی ایک آیات اس بات کی طرف بخوبی نشاندہی کرتی ہیں کہ ائمہ سے پہلے بھی ایسے کئی افراد رہے ہیں جنھیں الہی منصب کمسنی یا بچپنے کے عالم میں نصیب ہوا[۱]۔
ہمارے نویں امام حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) آٹھ یا نو سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ آپ اپنے والد حضرت امام علی رضا(علیہ السلام) کی بشارت کے بعد امامت کے عہدے پر فائز ہوئے، گذشتہ اماموں نے باقاعدہ آپ کی امامت کا ذکر کیا تھا۔
معلی ابن احمد کی روایت ہے کہ امام رضا(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد میں نے امام محمد تقی(علیہ السلام) کی زیارت کی اور آپ کے خدوخال، قد و اندام پر غور کیا تاکہ لوگوں سے بیان کر سکوں، اتنے میں امام محمد تقی(علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: ’’ اے معلی! خداوند عالم نے نبوت کی طرح، امامت کے لئے بھی دلیل پیش کی ہے’’ وَ آتَيْناهُ الْحُکْمَ صَبِيًّا [مریم:۱۲] اور ہم نے انھیں(جناب یحیی کو) بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی ‘‘[۲]۔
محمد ابن حسن ابن عمارکی روایت ہے کہ: میں دو سال سے مدینہ میں ’’ جناب علی ابن جعفر‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور وہ روایتیں لکھتا تھا جسے وہ اپنے بھائی امام موسیٰ ابن جعفر(علیہا السلام) سے ہمارے لئے بیان کرتے تھے، ایک دن ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں امام تقی(علی السلام) تشریف لائے، ان کو دیکھتے ہی علی ابن جعفر برہنہ پا اور بغیر عبا کے احترام کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔
امام نے فرمایا: چچا جان آپ تشریف رکھیں، خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے۔
عرض کیا: آقا! میں کیونکر بیٹھ سکتا ہوں جبکہ آپ کھڑے ہوئے ہیں۔
جب علی ابن جعفر واپس آئے تو ان کے دوستوں نے ان کی ملامت کی کہ آپ ان کے والد کے چچا ہیں اور اس طرح ان کا احترام کرتے ہیں۔
علی ابن جعفر نے کہا: خاموش رہو،(اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا) خداوند عالم نے اس سفید داڑھی کو امامت کے لائق نہیں سمجھا اور اس جوان کو اس کے لئے منتخب کیا، تم یہ چاہتے ہو کہ میں ان کی فضیلت کا انکار کروں؟ میں تمہاری باتوں کے سلسلہ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں، میں تو اس کا ایک بندہ ہوں[۳]۔
نتیجہ: الہی منصب کی شناخت اور معرفت رکھنے والے کبھی بھی اس مقام اور منزلت پر فائز افراد کے سلسلہ میں دھوکا نہیں کھاتے بلکہ ہمیشہ حکم پروردگار کے تابع ہوتے ہیں اگر چہ وہ ولی خدا، سن وسال کے لحاظ سے کمسنی ہی کے عالم میں کیوں نہ ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] ان میں سے سورۂ مریم کی آیات ۱۲، ۲۹، ۳۰ ہیں۔
[۲] ارشاد مفید، صفحہ ۳۰۶۔
[۳] کافی جلد ۱، صفحہ ۳۲۲۔
Add new comment