ہمارے معاشرہ میں نذروں کا رواج بہت عام ہے، اسی میں سے ایک ’۲۲ رجب کے کونڈوں‘ کی نذر ہے۔ مقالہ ھذا میں اس نذر کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے اور اس نذر سے وابستہ کچھ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ:
ماہ رجب کی فضیلت ہر مسلمان پر عیاں ہے، محققین اور علماء نے اس ماہ کی فضیلت کو بیان کرنے والی احادیث اور روایات پر کافی خامہ فرسائی کی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسی ثقافتی رسومات بڑی شان و شوکت سے رواں دواں ہیں جو احادیث سے ثابت نہیں البتہ انہیں بالکل ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں رسومات میں سے ایک ۲۲ رجب کے دن امام صادق علیہ السلام کے نام کی نذر ہے، جو ’کونڈے کی نذر‘ سے مشھور ہے۔
اس نوشتہ میں تفصیل کے ساتھ ’۲۲ رجب کے کونڈوں کی نذر‘ کی شرعی حیثیت پر گفتگو کرنا مراد نہیں ہے اور نہ وہابی طرز تفکر رکھنے والے اذہان میں جو شبہات ہیں انکو ’بالکل‘ زائل کرنا ہے، بلکہ ایک مختصر تعارف پیش کرنا ہے ان سادہ لوح افراد کے لیئے جو فقط عقلی تحلیلوں یا نقل شدہ روایتوں کے جھرمٹ میں الجھ کر ہراس بات کو جو انکے مقرر کردہ پیمانے میں نہ اترے اسے پوری طرح سے ردّ کردیتے ہیں۔ اس غیر سنجیدہ حرکت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو انگنت خوبیاں اس رسم سے وابستہ ہیں وہ بھی نظر انداز ہو جاتی ہیں۔
تنقیدی جائزہ:
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی شیعہ اس نذر کو ’واجبِ شرعی‘ سمجھ کر انجام نہیں دیتا، جیسا کہ بعض متعصبین اعتراض کرتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جس قصہ کو اس نذر کی اساس بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ قابل اعتراض اور سمجھ سے پرے ہے۔
جو افواہی افسانہ امام صادق علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتا، اور اگر یہ بات ’کہ کونڈے کی نذر کرو‘ امام کی طرف منسوب کی جاتی ہے تو یہ امام کی جانب جھوٹ منسوب کرنا ہوا۔
تاریخی جائرہ:
بظاہر جو قصہ اس نذر کی بنیاد بنا اسکا تاریخِ اسلام میں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ چونکہ اس قصہ کی کوئی تاریخی سند نہیں ہے لھذا تاریخی حیثیت سے زیادہ کچھ بیان کرنا دشوار ہے، لیکن جو معلوم ہو سکا وہ یہ کہ اس نذر کی شروعات 1906 میں ’رامپور‘ کی ریاست سے اس وقت ہوئی کہ جب ایک کتابچہ ’’داستانِ عجیب‘‘ کے نام سے چھپوایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی شروعات رامپور کے مشھور ’امیر مینائی‘ کے خاندان سے ہوئی، چونکہ اس زمانے میں لکھنو میں شیعوں کا دوردورہ تھا اور اپنے خاص روایتی آداب اور ثقافتی سلیقوں کے لیئے شہرہ آفاق لکھنو کے ماحول نے اس نذز کا چلن عام کردیا۔
کچھ کا کہنا ہے کہ1911ء تک یہ سالانہ نذر ’اودھ‘ میں عام ہو گئی کیوںکہ وہ زمانہ شیعوں کی حکومت کا تھا لھذٓا ’’الناسُ علی دین ملوکھم‘‘ کے مطابق سنی اور شیعہ مل کر کونڈے کی نذر و نیاز کو انجام دینے لگے۔[1] حالانکہ یہ تجزیہ جانبدارانہ ہے کیونکہ حکومت اودھ کا دورہ 1732 سے شروع ہوا اور 1856 میں ختم ہو گیا تھا اور سنی عوام کی شرکت کا سبب حکومت کا دباو نہیں تھا بلکہ اسکی وجہ انکی اہلبیت (علیہم السلام) اور شعیان اھلبیت(علیہم السلام) سے بےلوث محبت تھی۔ بلکہ ’البغض یعمی و یعصم‘ کے مطابق مفتی صاحب نے فتوا دے ڈالا کہ: ’’ :”اس رسم میں ہرگز شرکت نہیں کرنی چاہئے، بلکہ حتی الوسع اسے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے، اس دن نیک مقصد کے تحت خیرات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ اس میں تشبہ بالروافض ہے‘‘[2] یہ تو تعصب ہی ہوا کہ ماہ رجب کے عظیم مہینہ میں نیک کام اور خیرات سے ہی مطلقا منع کردیا۔ ’اللہ کہے کچھ بندہ کرے کچھ‘۔
الغرض، مختصرا یہ واقعہ کم افسانہ زیادہ، کچھ اس طرح سے بیان کیا جاتا ہے کہ، مدینہ میں ایک لکڑہارا شدید تنگدستی کی زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ اسکے بیوی بچے اکثر اوقات فاقے کرتے تھے، اچھی معیشت کی تلاش میں وہ شہر سے باہر چلا گیا اور بارہ سال تک محنت کرتا رہا لیکن فقر و فاقہ اور تنگدستی کی زندگی ہی گزارتا رہا.... اس لکڑہارے کی بیوی کو لگا کہ وہ لاپتہ ہو گیا ہے اس غرض سے وہ وزیر کی بیوی کے پاس اپنی دہائی لے کر گئی۔۔۔۔وزیر کی بیوی نے اپنے محل میں اسے نوکری پر رکھ لیا۔ ایک دن لکڑہارے کی بیوی وزیر کے محل میں جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس عورت نے امام (علیہ السلام) کو اپنے ساتھیوں سے پوچھتے ہوئے سنا کہ آج کونسی تاریخ ہے؟ اصحاب نے جواب دیا کہ آج 22 رجب ہے، امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا اگر کسی کی کوئی حاجت یا مشکل ہو تو مشکل کشائی کے لیئے اسے چاہئیے کہ بازار سے نئے کونڈے لائے اور ان میں کچھ میٹھا رکھ کر میرے نام کی نذر دے اور دعا مانگے اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں ہوئی تو وہ قیامت کے روز میرا دامن پکڑ سکتا ہے۔ لکڑہارے کی بیوی نے یہ بات سنی اور نذر دلائی۔۔۔ اس کا شوہر مالدار ہو کر واپس لوٹ آتا ہے اور ایک شاندار محل تعمیر کر کے رہنے لگتا ہے۔ جب وزیر کی بیوی کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اسکے نوکر تھے آج اتنے مالدار ہو گئے ہیں، اس ماجرا کی ٹوہ میں لکڑہارے کی زوجہ سے دریافت کیا۔۔۔۔ اس عورت نے ساری حقیقت جوں کی توں بیان کردی، وزیر کی زوجہ نے اسکا اور اس نذر کے طریقہ کا مزاق اڑایا تو وزیر کی وزارت کے ساتھ ساتھ سارے ناز و نخرے ختم ہو گئے اور جب اپنی اس گستاخی پر پشیمان ہوکر توبہ کی اور کونڈوں کو مان کر نذر دلائی تو دوبارہ اچھے دن پلٹ آئے۔۔۔ اس کے بعد بادشاہ اور قوم ہر سال دھوم دھام سے یہ رسم منانے لگے۔
یہ تھی وہ داستان جسے مختصر طور پر پیش کیا البتہ اس کے کچھ اور بھی شوشہ ہیں۔
کچھ اعتراض:
شرعی لحاظ سے اس نذر پر دو اہم اعتراض کیئے جاتے ہیں،
1) اس نذر کے واقعہ کو امام معصوم (علیہ السلام) سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ یہ واقعہ جھوٹا اور منگڑھت ہے اور تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی معصوم سے کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو اسنے نہ کہی ہو، حرام ہے۔
2) دین کا جزء یا واجب سمجھ کر انجام دیا جانا غلط ۔
3) 22 رجب مرگ معاویہ کا دن ہے، لھذا اس دن یہ نذر اختلاف کا موجب ہے۔
4) یہ نذر ہندوستان اور پاکستان کے شیعوں کے علاوہ ایران یا عرب ممالک میں نہیں منائی جاتی۔
اصلاح:
ان تمام اعتراضات کا بطور کلی حل یہ کہ، لوگوں کو بتایا جائے کہ اس نذر کو کسی بھی وجہ سے امام صادق (علیہ السلام) کا حکم مانتے ہوئے انجام نہ دیں اور جزء دین نہ مانیں۔
اہلسنت حضرات 22 رجب کو معاویہ کی موت کا دن مانتے ہیں[3] لیکن اس دن امام صادق (علیہ السلام) کے نام پر نذر دلانا اس بات سے کوئی مغایرت نہیں رکھتا بلکہ ھندوستان اور پاکستان میں سنی حضرات بھی اس نذر کو انجام دیتے ہیں، لھذا یہ کوئی اختلاف اور تفرقہ پھیلانے والی بات نہیں، بلکہ یہ تو غلط فہمیاں دور کر کے اتحاد کا موقع بننا چاہیئے۔
اگرچہ سید ابن طاوس[4] (رہ) اور شیخ طوسی[5] (رہ) نے ۲۲ رجب کو مومنین کے لیئے مسرت کا دن بتایا ہے اور اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
آخری اعتراض بھی پہلے جواب کے ساتھ یوں حل ہوجاتا ہے کہ یہ نذر جسے ہم اپنی زبان میں منّت یا نیاز کہتے ہیں، دین کا جزء نہیں ہے تو دوسرے اسلامی ممالک میں اسکو تلاش کرنا اور اسے دلیل بنانا فضول ہے، جبکہ یہ نذر و نیاز برصغیر کے شیعوں کا سلیقہ اور اس خطے کے باشندوں کی ثقافت ہے۔
انبیاء، معصومین اور علماء کا یہ تبلیغی شیوہ رہا ہے کہ اگر کسی قوم کی کوئی رسم اسلامی موازین کے خلاف نہ ہو تو اسکی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اسکو اسلامی رنگ روپ دے کر جہت دار بنا دیتے تھے۔ ہمارا طریقہ بھی یہی ہونا چاہیئے کہ اس نذر کو اور اس جیسی تمام رسومات کو خرافات اور دستورات اسلامی کے مخالف چیزوں سے دور رکھ کر انجام دیں، تاکہ منفی پہلو ختم ہوں اور مثبت پہلو اجاگر ہوں۔
اس نذر کے کچھ مثبت پہلو، جنکی اسلام تایید بلکہ تعلیم دیتا ہے:
۱۔گھر کی صاف صفائی کی جاتی ہے اور اسلام بھی نظافت کا حکم دیتا ہے۔
۲۔مہمانوں کو دعوت دینا۔ اسلام کا بھی حکم ہے کہ گھر میں مہمان کو بلایا جائے۔
۳۔مومنین اور مسلمین کا آپس میں خوشی سے ملنا۔ اسلام بھی معانقہ، مصافحہ، ادخال السرور فی قلب المومن وغیرہ جیسے حکم دیتا ہے۔
۴۔لوگوں کو کھانا کھلانا اور منہ میٹھا کرانا۔ انفاق اور صدقہ اسلامی تعلیمات کے مسلمات میں سے ہے۔
۵۔رشتہ داروں اور اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیئے جانا۔ صلہ رحم کرنا اسلامی تعلیمات کا نصب العین ہے۔
۶۔نذر کا اہم رکن دعا اور ذکر اہلبیت(علیہم السلام) ہے۔ اللہ (جل جلالہ) سے لوح لگانا اور اہلبیت اطھار (علیہم السلام) کو یاد کرنا دستور اسلام ہے۔
۷۔ رجب جیسے عبادتوں کے مہینہ میں ایسے نیک کام انجام دینا مستحبات میں سے ہے، بلکہ اگر کسی نے اللہ سے عہد کیا ہو اور اسکی شرعی نذر ہو کہ اگر فلاں کام ہو گیا تو امام صادق (علیہ السلام) کی خوشنودی کے لیئے نذر دلائے گا تو نہ صرف مستحب بلکہ یہ ۲۲ رجب کی نذر واجب ہو جائے گی۔
اور بھی مثبت گوشہ نکالے جاسکتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے منفی باتوں کو بھول کر ان جیسی مثبت باتوں کو اپنی قوت بنائیں۔
نتیجہ:
وہابی تو نذر و نیاز کے منکر ہیں ہی لیکن بعض اپنے ہی کچھ رسومات کی بے جا مخالفت کر کے رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ اس مختصر نوشتہ میں اس سے زیادہ بیان کی گنجایش نہیں ہے۔
غرض یہ کہ، ۲۲رجب کے دن ’’کونڈے کی نذر‘‘ اور دیگر مشابہ رسومات کو، خرافات کہہ کر رد نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اصلاح کرتے ہوئے اسلامی آداب کے مطابق منایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] رجب کے کونڈوں پہ ایک نظر- مصنف:ابو جنید محمد صادق خلیل (مری)
[2] ۔ مولانا خیر محمد جالندھری۔ خیر الفتاوی:1/572
[3] ”مات معاویة بدمشق سنة ستین یوم الخمیس لثمان بقین من رجب“ [تاریخ طبری:5،324،دار التراث، بیروت]
[4] سید بن طاوس: اقبال الاعمال، ص ۶۶۷، دار الکتب الاسلامیه، تهران، ۱۳۶۷ ش
[5] شیخ مفید، محمد بن ہوسف: مسار الشیعہ، ص59، چاپ کنگرہ شیخ مفید، قم،۱۴۱۳ق
Add new comment