تقلید (۲)

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:فروع دین کے مسائل کو جاننے کے لیے انسان کے تین راستے ہیں:اجتہاد، احتیاط اور تقلید۔ تقلید، شریعت کا اہم حصہ ہے اور اس کو شرعی حیثیت حاصل ہے۔

تقلید (۲)

تقلید(۲)

تقلید(۱) کا بقیہ۔۔۔۔۔

فروع دین کے مسائل کو جاننے کے لیے انسان کے تین راستے ہیں:

۱۔ خود انسان دین کے مخصوص علم کو حاصل کر کے اجتہاد کی منزل پر فائز ہو اور پھر قرآن و احادیث کی روشنی میں دینی مسائل کا استنباط(قرآن و احادیث کی روشنی میں مسئلے کی جڑ تک پہنچنا) کرے۔ اس کام کو اجتہاد کہتے ہیں۔

۲۔ یا اس مسئلہ کے تمام جوابات جو بیان کئے گئے ہوں، ان سب کو جانتے ہوئے ایک راستہ نکالے تاکہ اسے اطمینان ہو جائے کہ اسنے اپنی دینی ذمہ داری اد کر دی ہے۔ اس کام کو احتیاط کہتے ہیں۔

۳۔ یا پھر کسی زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر عمل کرے کہ جو دین کے مسائل کے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے لئے تمام مقدمات اور مرحلون کو طے کر چکا ہو۔ اسی تیسرے راستے کو شریعت کی زبان میں تقلید کہتے ہیں۔

پہلا راستہ بہت ہی دشوار ہے اور اس کے لئے کئی سال تک حوزات علمیہ میں سخت جد و جہد کی ضرورت ہے کہ جو سب کے بس کی بات نہیں۔

دوسرا راستہ بھی ہر انسان کے لئے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے بھی انسان کا  عالم ہونا ضروری ہے تاکہ وہ تمام ماہرین کے جوابات سے آ گاہ ہو سکے۔ کبھی کبھی اس راستے میں بہت دشواریاں ہوتی ہیں۔

اب بچتا ہے تیسرا راستہ کہ جو آسان بھی ہے اور قابل اطمینان بھی۔ یہ وہ راستہ ہے کہ جسکی قرآن و احادیث بھی تائید کرتی ہے۔ قرآن مجید مختلف مقام پر اہل علم سے سوال کرنے کی طرف دعوت دیتا ہے۔(سورہ انبیا، آیت ۷)[1]

اور روایت میں دیکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلیہ السلام  نے ابان بن تغلب سے فرمایا: مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کو فتوی دو، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میرے شیعوں کے درمیان تمہارے جیسے افراد موجود ہوں( مستدرک الوسائل جلد ۱۷، باب ۱۱)[2]۔

اس سلسلہ مین متعدد(کئی) حدیثیں ہیں لیکن سب کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں پر صرف امام زمانہ  عج ۔۔ کی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں جو آپ نے اپنی توقیع(وہ کلام جو امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے غیبت صغری میں ان کے خاص نائبوں کو حضرت کی طرف سے ملے) بیان فرمایا ہے:

سوالات اور واقعات جب پیش آئیں تو حدیثوں کے راویوں (فقہاء) کی طرف رجوع کرو  کیونکہ وہ لوگ تمہارے لئے اور تم پر ہماری طرف سے حجت ہیں. (بحارالانوار، جلد۲، صفحہ ۹۰)[3]

ان تمام باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقلید، شریعت کا اہم حصہ ہے اور اس کو شرعی حیثیت حاصل ہے، اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں موجودہ فقہا اور مجتہدوں کو پہچانیں اور دینی و شرعی مسائل میں انکی تقلید کریں۔

لیکن اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ تقلید صرف فروع دین(احکام دین جیسے نماز و روزہ کے مسئلے) میں ہوتی ہے،  اصول دین (جیسے اللہ، نبی اور اماموں کی معرفت اور ان پر اعتقاد وغیرہ) میں تقلید جائز نہیں ہے بلکہ اصول دین، اپنے ذاتی(نجی) استدلال اور دلیلوں سے اپنے لئے ثابت کرنا ہوتا ہے۔

 

[1] ۔  فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون
[2] ۔ اجلس فی مسجد المدینۃ و افت الناس  فانی احب ان اری فی شیعتی مثلک
[3] ۔ و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا فانھم حجتی علیکم

Tags: 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 36