شہید مرتضیٰ مطہری (رح) کی مثالی زندگی 1

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:  یوں تو آیت اللہ شہید مطہری کی پوری زندگی ہم لوگوں کے لئے نمونہ ہیں مگر میں نے اس مقالہ میں آپ  کی زندگی کے چند پہلو کو ذکر کیا ہے جیسے آپ کا ا عشق قرآن و اہلبیت ع سے کیا تھا؟ اور آپ نماز شب کا اہتمام کس طرح فرماتے تھے آپ کی پاکبازی اور آپ کا شوق تحصیل کس حد تھا ان چیزوں کا ذکر اس مقالہ میں کیا ہے اس امید کے ساتھ کے خدا ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین

شہید مرتضیٰ مطہری (رح) کی مثالی زندگی 1

انسان کی روح ؛ولادت کے وقت سے بالکل تازہ زمین کی مانند ہوتی جس میں ہر طرح کی گھاس اگنے کی صلاحیت و قابلیت ہوتی ہے۔ آدمی کی قابلیتوں ، صلاحیتوں کی پرورش اور استعداد کے لئے ایک نمونہ و آئیڈیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسا نمونہ ہو کہ جسکی رفتار و کردار سے عاشقان کمال کے لئے زندگی جینے کے بہتر نقوش ہوں۔ وہ انسان کا ہاتھ پکڑے اور سیدھے راستے تک پہونچائے ، قرآن مجید ایسے اسوہ و نمونہ کا ذکر فرماتا ہے :۔ و لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم آلاخر و ذکر اللہ کثیرا[1]۔ بیشک [افکار و کردار میں] پیامبر اکرم ص بہترین نمونہ ہے ،ان لوگوں کے لئے جو خدا سے امید رکھتے ہیں، قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں۔

خداوندعالم نے ہماری زندگی کے لئے بہتر ین نمونے بیان کئے ہیں اور انکی سیرت پر عمل کرنا بہت ضروری ہے چنانچہ امام سجاد ع فرماتے ہیں ؛۔ الا و ان ابغض الناس الی اللہ من یقتدی بسنۃ ایام ولا یقتدی باعمالہ[2]؛۔ ہوشیار ہو جاو کہ خداوندعالم کے نزدیک منفور ترین شخص وہ ہے جو اپنے امام کے طریقےکو قبول تو کرتا ہے لیکن اس کے اعمال کی پیروی نہیں کرتا ہے۔

اسی طرح امام صادق ع فرماتے ہیں کہ ؛۔ من ائتم بامام فلیعمل بعلمہ۔ جو شخص کسی امام کو اپنا پیشوا و اسوہ قرار دے اسے چاہئے کہ اپنے عمل کو اسکے طریقہ وشیوہ کے مطابق ہو[3]۔

آئمہ اطہار ع کے بعد آیات عظام و علماء کرام ہی ہمارے لئے نمونہ و آئیڈیل ہیں ہر زمانے میں ایسے علماء گزرے ہیں جن کے گفتار وکردار پر عمل کرکے کامیابی کی راہ حاصل ہوئی ہے ۔

بیشک استاد شہید مرتضیٰ مطہری بھی موجودہ زمانے کے لئے ایک ایسی شخصیت تھے جو راہ حقیقت کے متلاشیوں کے لئے زندگی کے مختلف پہلووں میں اسوہ و نمونہ تھے ، علم و معارف کے میدان میں آپ نے طلاب و فضلائے حوزہ ہای علمیہ کے لئے جدید افق کھول دئیے تھے ۔ آپ کے علم کی وسعت فقہ و اصول و فلسفہ سے لیکر عرفانی وباطنی مراتب تک عام و خاص تمام کی زبانوں پر ہے ، فرھنگ دینی کی تشکیل میں آپ نسل حاضر کے لئے بہترین معاون ومددگار تھے ، آئیے اس نمونہ شخصیت کے مختلف پہلووں پر کچھ روشنی ڈالیں، تاکہ ہم اپنے اسوہ زندگی کو دوسروں کے لئے مفید و کارآمد بنا سکیں۔

عشق قرآن و اہلبیت ع ؛۔

استاد قرآن مجید اور اہلبیت اطہار ع سے بہت انس و محبت رکھتے تھے آپ کے فرزند کہتے ہیں کہ میرے والد قرآن کی تلاوت بہترین لہجہ میں فرماتے تھے ہر شب نماز مغربین کے بعد ایک یا چند سوروں کی تلاوت فرماتے تھے اسی طرح سونے سے پہلے آدھا گھنٹہ قرآن پڑھا کرتے تھے[4]۔

خود آپ نے اپنے ایک فرزند کو خط میں لکھا تھا کہ حتیٰ الامکان قرآن کی تلاوت سے کھبی دور نہ رہنا چاہئے ایک ربع ہی کیوں نہ ہو کہ اس میں ۵/ منٹ بھی نہیں لگتے ہیں اور اس کے ثواب کو حضرت رسول اکرم ص کی روح مبارک کو ہدیہ کرنا تاکہ تمہاری عمر وکامیابی میں برکت کا سبب ہو[5]۔

اسی طرح شہید مطہری کا اہلبیت ع سے عشق و محبت کا چرچہ عام و خاص کی زبان پر تھا۔ حوزہ کے ایک بزرگ استاد بیان فرماتے ہیں کہ ؛میں نے استاد مطہری سے عرض کیا کہ آپ علامہ طباطبائی کا حد سے زیادہ احترام فرماتے ہیں اس قدر احترام کی وجہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا میں نے بہت سے فلسفی و عارف کو دیکھا ہے لیکن ان کے جیسا کسی کو نہیں دیکھا ہے وہ اہلبیت کرام ع کے عاشق ہیں اور [تدریس کے بعد] پہلے وہ پیدل چل کر معصومہ ع کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ضریح مقدس کا بوسہ لیتے ہیں اس کے بعد گھر جاکر کھانا وغیرہ کھاتے ہیں اسی صفت کی بناء پر میں انکا شدت سے گرویدہ ہوں [6]۔

اہتمام نماز  شب ؛۔

طہارت باطنی، حضور قلب ، خشوع ، شوق ، آداب باطنی، توجہ ، یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کو معصومین ع کے ارشادات میں آداب نماز شمار کیا گیا ہے جن کی ہر نمازی کو رعایت کرنا چاہئے ۔ شہید مطہری بھی نماز کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ آپ کی ہمسر بیان فرماتی ہیں کہ ؛۔ آپ گھر کے لباس میں کبھی نماز نہیں پڑھتے تھے خاص طور پر صبح کی نماز کہ جب ہم عام طور سے بستر سے اٹھتے ہیں تو اسی لباس کے ساتھ نماز بھی پڑھ لیتے ہیں لیکن استاد جب صبح کی نماز لئے اٹھتے تھے تو لباس پہنتے تھے عمامہ سر پر رکھتے تھے اور اپنے آپ کو نماز کے لئے آراستہ کرکے نماز پڑھتے تھے شاید ان کا یہ کام روحانی آمادگی کے لئے ہوتا تھا[7]۔

نماز شب اور دیگر مناجات کا عجیب عالم تھا رہبر انقلاب فرماتے ہیں کہ ، یہ مرد نیمہ شب میں آہ و نالہ فرمایا کرتا تھا اور نماز شب پڑھتے وقت اتنا گریہ کرتا تھا کہ ان کے گریہ و مناجات کی آواز سے دوسرے افراد بیدار ہوجاتے تھے۔

آپ  کے دوستوں میں سے ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ اوائل ملاقات وشناخت میں استاد مجھے نماز شب کے لئے بہت تاکید فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ نماز شب انسان کو معنویت عطا کرتی ہے ، روح انسان کو تازہ کردیتی ہے لیکن میں ہمیشہ ان کی اس خواہش کو [کہ میں بھی نماز شب پڑھوں] یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ کہ مدرسہ کا پانی سب کے استفادہ کے لئے نہیں ہے ،یہاں تک کہ ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے بیدار کر رہا ہے اور کہہ رہا تھا کہ میں عثمان بن حنیف ہوں علی ابن ابی طالب ع کا نمائندہ ۔ آنحضرت ع نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اٹھو اور نماز شب پڑھو اور یہ نامہ بھی ہے جسے امام ع نے آپ کے لئے بھیجا ہے اس چھوٹے سے نامہ میں لکھا تھا کہ " ھذہ براۃ لک من النار" یہ نماز شب تمہارے لئے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ۔ میں عالم خواب ہی میں تھا کہ اچانک میں محسوس کیا کہ استاد مطہری مجھے بیدار کر رہے ہیں ان  کے ہاتھ میں ایک پانی کا ظرف تھا انھوں نے پانی آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ لو یہ پانی مدرسہ کا نہیں بلکہ دریا سے فراہم کیا ہے اٹھو اور نماز شب پڑھو[8]۔

پاکبازی ؛۔

آپ کی ہمسر گرامی آپ کے اخلاقی و معنوی خصوصیات کے بارے میں بیان فرماتی ہیں کہ؛۔ مرحوم مطہری اپنے اندر ایک عجیب قسم کا تقویٰ رکھتے تھے میں نے ۲۳/ سالہ ان کے ساتھ زندگی میں کبھی بھی ان کو آدھا گھنٹہ کے لئے بے وضو نہیں دیکھا آپ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ دائمی وضو اچھا ہے ۔

آپ درس و تدریس کے لئے بھی جب جاتے تھے تو با وضو ہوتے تھے اور آپ جلسہ کو ایسی معنویت بخشتے تھے کہ سننے والا آپ کو پورے معنوی وپاکیزہ وجود کے ساتھ محسوس کرتا تھا ۔ استاد درس گاہ میں طلاب سے بھی وصیت فرمایا کرتے تھے کہ درس گاہ مسجد کے بہ منزل ہے لہذا کوشش کریں کہ بغیر وضو درس گاہ میں داخل نہ ہوا جائے [9]۔

شوق تحصیل ؛۔

استاد مطہری اپنے عالم ، پرہیزگار والدین کے ساتھ علم و عمل و تقویٰ کے ماحول میں رہ کر ان صفات سے آراستہ ہوئے ،آپ کو تعلیم و تحصیل سے بہت لگاو تھا آپ کی والدہ کے بقول آپ کو تین سال کی عمر میں ہی علم سیکھنے ،نماز و اعمال انجام دینے میں بہت عجلت رہتی تھی۔ چھ، سات سال کی  عمر میں ہی مکتب جانے کا خود سے بہت شوق تھا چنانچہ ایک مرتبہ صبح جلدی عبا دوش پر ڈالی اور مکتب چلے گئے چونکہ مکتب بند تھا لہذا دروازے پر ہی بیٹھ گئے ، گھر والے پریشان ہوگئے کہ اتنا جلدی کہاں نکل گئے ، خوب تلاشی کے بعد پتہ چلا کہ ان کا فرزند علم کی تلاش میں مکتب کے دروازے پر جاکر بیٹھا ہے ۔

--------------------------------------------------------

حوالہ جات:
[1] سورہ احزاب ؛ آیت/۲۱۔
[2] اصول کافی، ج/ ۸۔ ص/۲۳۴۔ ح /۳۱۲۔
[3] ارشاد القلوب، ص /۱۰۱۔
[4] ویژہ نامہ استاد مطہری ،ص/ ۲۱۔
[5] موفقیت استاد مطہری،ص/ ۱۳۶۔
[6] پیام انقلاب، شمارہ/۱۲۳، ماہ آبان سال/ ۶۳۔
[7] طہارت روح، واعظی نژاد،ص/۳۸۔
[8] سجادہ عشق، چاپ تہران، سال /۶۸،ص/ ۹۔
[9] مطہری مظہر اندیشہ ھا، چاپ دفتر تبلیغات اسلامی، ج/۱ص/ ۲۸۔
 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 82