چکیده: یوں تو آیت اللہ شہید مطہری کی پوری زندگی ہم لوگوں کے لئے نمونہ ہیں مگر میں نے اس مقالہ میں آپ کی زندگی کے چند پہلو کو ذکر کیا ہے جیسے آپ کی روشن ضمیر کس حد تک تھی آپ کی آئندہ نگری کیسی تھی، اور آپ کا علمی وقار لوگوں کے نزدیک کتنا تھا، آپ اتنے بڑے نامور محقق تھے اس کے با وجود آپ کام اور کوشش میں آپ کتنے سنجیدہ تھے، وغیرہ ان چیزوں کا ذکر اس مقالہ میں کیا ہے اس امید کے ساتھ کے خدا ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین
روشن ضمیر؛۔
شہید مطہری کی روشن ضمیری اور بیداری فکر آپ کی کامیابیوں کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ شمار ہوتی ہے ۔ اس عظیم روحانی ملکہ نے آپ کو اسلامی اور معاشرتی مسائل کے ضمن میں ایک محقق کی حیثیت سے پہچنوایا اور اسی وجہ سے آپ دوسروں کی آراء و اقوال میں محصور نہیں رہے بلکہ دوسروں کے آراء و نظریات کو احترام کے ساتھ ساتھ انتقادی نگاہ سے دیکھتے تھے نتیجۃً آپ کے بہت سے علمی کاموں میں بھلے ہی کچھ تککراری بھی ہیں لیکن ان میں خلاقیت پائی جاتی ہے اور برسوں کے بعد بھی آپ کے افکار و نظریات نئے ہی لگتے ہیں۔
آئندہ نگری؛۔
استاد مطہری کسی کام کو بھی بغیر مقدمات و تفکر کے انجام نہیں دیا کرتے تھے انقلاب کے وقت کچھ مادہ گروں اور دشمنان اسلام کی بے جا دخالت کے حوالے سے فرمایا تھا؛ مجھے خطرے کا احساس ہے ہمارا مقصد اسلام کو رائج کرنا ہے یہ لوگ اسلام کے مخالف ہیں میں جانتا ہوں کہ آئندہ ہمارا ہے لہذا ہماری صفوں کو دشمنوں سے جدا ہونا چاہئے تاکہ بعد میں دشمن یہ کہتے ہوئے اپنا حق نہ مانگے کہ ہم ہی تو تھے جنہوں نے انقلاب کو منزل تک پہونچایا تھا۔
آیۃ اللہ مہدوی کنی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ؛۔ استاد مطہری آئندہ دس سال کی بات کو ہم سے پہلے درک کر لیتے تھے اور ہم بعد میں سمجھ پاتے تھے[1]۔
تسلط وملکہ کار؛۔
استاد مطہری اپنے کام میں پوری طرح مسلط رہتے تھے ، ایران میں دین کے مخالف فلسفی اور منطقی افرادکے نظریات کے جواب دینے میں ان کا تسلط بے مثال تھا ، آپ فلسفی اور علمی مباحث میں اس قدر مسلط تھے کہ جو بھی آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرکے بیٹھ جاتا تھا وہ اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت کے سامنے پاتا تھا جس نے اپنے پورے وجود سے پڑھا اور اچھی طرح سب کچھ سمجھا ہو۔
آپ خود اپنے والد کو ایک نامہ میں لکھتے ہیں کہ ؛۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندگی میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہوں اور لطف پروردگار سے اپنے دینی فرائض کو انجام دے رہا ہوں میں اپنے کام پر مسلط ہوں، جو روٹی کھاتا ہوں وہ محنت و کوشش کی روٹی ہے میری آبرو و احترام محفوظ ہے[2]۔
علمی مقام و ملکہ؛۔
میدان علم میں آپ کے آثار و تالیفات ہی اپ کے علمی مقام و ملکہ کی گواہی کے لئے کافی ہیں آپ کی بہت سی تالیفات و تحقیقات ہیں جن کی آج بھی حوزات و یونیورسٹیوں میں درس و تدریس ہوتی ہے ۔ خاص طور پر آپ نےنسل جوان کی ضرورت کے لئے بہترین خدمات انجام دی ہیں۔
آپ کے مقام علمی کے بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں کہ میں ایک اہم جملہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مرحوم آقای مطہری ایک فرد تھے جن میں مختلف پہلو جمع تھے آپ نے جوانوں اور دوسروں کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں ایسا کم لوگوں نے کیا ہے[3]۔
یہاں چند نکات آپ کے علمی مقام و ملکہ کے حوالے سے پیش ہیں۔
آپ کے علمی آثار کے آج بھی رائج ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ آپ نے ہر چیز کو بہت دقت نظری کے ساتھ جمع و تالیف فرمایا تھا جو بات بھی آپ کو ملتی تھی اسے لکھتے تھے لیکن متعدد مرتبہ اس کے بارے میں غور و فکر فرمانے کے بعد ہی اسے منتشر فرماتے تھے۔
آپ کی تحریر کے علاوہ تقاریر میں بھی آپ کے بیانات میں دقت نظری اور سادہ بیانی کا بخوبی اندازہ لگایا جاتا تھا جس کی وجہ سے آپ کے بیانات کا عموم افراد پر اثر ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ نے مغربی فلسفی فکروں کے مقابل اسلامی فلسفہ کی ایسی سادہ تصویر پیش فرمائی کہ نسل جوان کی زبان پر بھی بہت کم عرصہ میں آپ مقبول ہوگئے تھے۔
آپ نے نسل نو کے لئے خاص طور سے علمی کام کئے ۔ اور مسائل دینی و مذہبی کو بہترین انداز میں پیش کیا تاکہ معارف دینی کو سمجھنے میں آسانی ہو اس لئے کہ آپ اس بات کے قائل تھے کہ ہر زمانے میں معارف اسلامی سے نسلنو کی آشنائی کا بھرپور اہتمام ہونا چاہئے، اسی طرح استعمار و دشمنان اسلام کی طرف سے ہونے والے مختلف قسم کے پرانے اور گھسے پٹے شبہات و اعتراضات کے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ جدید انداز میں جوابات پیش کئے ہیں تاکہ طبقہ جوان شک و شبہات اور دو دلی کا شکار نہ ہونے پائے[4]۔
آپ کی ایک علمی خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب بھی کسی موضوع پر کوئی بحث و مذاکرہ ہوتا تھا یا اسے تحریر فرماتے تھے تو اس میں اسکے متعلق و مربوط دیگر تمام علمی پہلووں کو بھی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ جمع کرکے پیش فرماتے تھے تاکہ تمام علوم کا ایک دوسرے سے ارتباط برقرار رہے اورکوئی بات تشنہ نہ رہ جائے۔
الغرض؛۔
شہید استاد مرتضیٰ مطہری کی شخصیت و مثالی زندگی کے اور بھی پہلو ہیں جن میں ہر ایک ان کی شخصیت و عظمت کے بیان کے لئے مستقل عنوان ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ شہید مرتضیٰ مطہری ،خراسان رضوی میں پیدا ہونے والے ایسے سورج کا نام ہے جو اس تمدن یافتہ دیار کے مشرق سے طلوع ہوا اور اپنے علم ودانش ، کردار وعمل اور جذبہ انقلاب و بدعات ستیزی کے نور سے پورے ایران و بیرون ایران پر چھاگیا ۔ اور شہید ہوکر بھی آج تک اپنے آثار سے زندہ و جاوید اور آیۃ اللہ، استاد، معلم، شہید جیسے القابات سے ساتھ مشہورہیں۔
حوالہ جات:
[1] سرگذشت ھای ویژہ از زندگی استاد مطہری، ص / ۱۲۲۔
[2] شیخ شہید ، تہران ، صدرا،ص/ ۲۲۔
[3] صحیفہ امام ، ج/۱۶، ص/ ۲۴۲۔
[4] عدل الہی ، مطہری،ص/ ۸۔
Add new comment