چکیده:زیارت اربعین مکتب امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تجدید میثاق ہے۔ایک ایسا مکتب جو ایسی تعلیمات سے پر ہے جو کسی زمان، مکان یا نسل کے ساتھ مخصوص اور محدود نہیں ہیں۔
اس مکتب کی شکل میں جو درس گذشتہ اور حاضر نسلوں کو دیئے جاتے ہیں ان کی وسعت انسانی زندگی کے تمام پہلووں کو شامل ہے۔ اھل بیت علیھم السلام کی حقیقی معرفت، تولی اور تبری،شھادت ، ولایت مداری ،علمی اور عملی جھاد کےلیے آمادگی وغیرہ زیارت اربعین کے عظیم معارف اور تعلیمات میں سے ہیں ۔ذیل میں بعض مھم سیاسی معارف اورتعلیمات کا اجمالی طور پر تذکرہ کریں گے ۔
1: ولایت مداری
شاید سب سے پہلا درس جو کسی خاص زمان و مکان کے ساتھ مختص نہیں ہے وہ ہے ولایت کی پیروی اور خط ولایت کو محور بناتے ہوئے آگے بڑھنا ۔سیاسی معرفت رکھنا اور ولایت اھل بیت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اس راہ پر چلنے کےلیے اس قدر مھم ہے کہ اس کو ایک تسبیح کے دھاگے سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے کہ تمام دانوں اور زندگی کےحالات کو آپس میں وصل کرتا ہے ۔ زیارت نامہ میں آیا ہے :"اللھم انی اشھد انہ ولیک و ابن ولیک وصفیک و ابن صفیک الفائز ‘‘ خدایا میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ آپ کے ولی اور تیرے ولی کا بیٹا تھا اور آپ کا برگزیدہ اور آپ کے برگزیدہ بندے کا بیٹا تھا کہ کامیاب ہوا۔
جو کچھ کربلا میں ہوا وہ صرف ولایت کی بغیر چون و چرا، اطاعت اور پیروی تھی ۔"فمعکم معکم لا مع عدوکم "۔اس کا مطلب ہے (ولایی)نظریہ رکھنا اور اس نظریے پر پایداری ،آئمہ کے خط کی حمایت اور دشمنوں کی مخالفت ۔ اسی طرح "اشھدک انی ولی لمن والاہ و عدو لمن عاداہ بابی انت و امی یا بن رسول اللہ ۔ ۔ ۔"میں گواھی دیتا ہوں کہ میں ہر اس شخص سے محبت کرتا ہوں جو آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کا دشمن ہوں جو آپ سے دشمنی کرے میرے ماں باپ آپ پر فدا اے فرزند رسول ۔
لہذا جس طرح کربلاوالوں نے ولایت کے حقیقی فلسفہ کو سمجھا اور اسی بنیاد پر اپنی پہچان اور جاودانی اخروی زندگی کو صرف اصل ولایت میں دیکھا ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ پہلے ولی کی باتوں کو سمجھیں اور ان پر مکمل طور پر عمل کریں ورنہ اس کے بغیر معصومین علیھم السلام کے فرامین کے ظاہری الفاظ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اور جانثاروں کی ولایت مداری اور ولایت پذیری کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ جس طرح زیادہ لوگوں کی امام حسین علیہ السلام کی ولایت سے دوری بھی ایک قابل توجہ موضوع ہے اور آج کے معاشرے کےلیے ایک درس بھی ۔
2: علمی اور عملی جھاد
دوسرا سیاسی درس، جھاد کا مفھوم ہے کہ جسے زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں :"فجاھدھم فیک صابرا محتسبا حتی سفک فی طاعتک دمہ و استبیح حریمہ اللھم فالعنھم لعنا و بیلا و عذبھم عذابا الیما ۔ ۔ ۔‘‘ انہوں نے جھاد کیا یہاں تک کہ اپنا خون تیری اطاعت میں بہا دیا اور اس کی حرمت پایمال ہوئی ۔ خدایا (ان کے قاتلوں پر)لعنت فرما بہت سنگین لعنت اور دردناک عذاب میں مبتلا فرما ۔اسی طرح ہے :"و جاھدت فی سبیلہ حتی اتیک الیقین ۔۔"خدا کی راہ میں جھاد کیا یہاں تک کہ شھادت حاصل کی ۔ حق اور باطل کی جنگ دو صورتوں میں ہوتی ہے ۔
الف: علمی اور فکری جھاد
جھاد کی یہ قسم غیر مستقیم صورت میں ہوتی ہے کہ جو دشمنوں کی ماھیت ظاہر ہونے اور حق سے ان کی دشمنی کی بنا پر ہوتا ہے ۔ علمی جھاد میں :
1:اسلام کا جامع اور برحق دین دکھایا جاتا ہے اور ہر بدعت اور تحریف کی شدت کے ساتھ نفی کی جاتی ہے ۔
2: دشمنوں کی ظاہر اور پوشیدہ شکلوں کو بیان کیا جاتا ہے اور لوگوں کےلیے کافروں اور منافقوں کے بارے میں علمی بصیرت ایجاد کی جاتی ہے اور سیاسی معلومات سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک مسلحانہ جنگ سے زیادہ حقیقی اسلام(نہ کہ بنی امیہ کا تحریف شدہ اسلام) کی معرفت کی تبلیغ اور روشن فکری کا مسئلہ ہے تاکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کی حقیقی تعلیمات کوزندہ کیا جاسکے اور یہ بات امام کی شھادت سے پہلے ان کی گفتار اور رفتار اور شھادت کے بعد حضرت زینب کی رفتار اور گفتار سے واضح ہے ۔
ب:عملی جھاد
جھاد کی اس قسم میں ، حق اور باطل دونوں ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ہوتے ہیں اور اسلامی مجاھدین فوجی طاقت سے استفادہ اور خدا پر توکل کرتے ہوئے دشمن کے آمنے سامنے جنگ کرتے ہیں ۔
لہذا امام حسین علیہ السلام نے دونوں میدانوں میں دین کے دشمنوں کے ساتھ بے مثال جھاد کیا یہاں تک کہ ہر زمانہ اور نسل کےلیے ایک ہمیشگی نمونہ بن گئے اور تمام دیندار اور اسلام کا درد رکھنے والوں نے علمی اور علمی میدانوں میں دین کی بلند ترین صورت میں حفاظت ،امام حسین علیہ السلام سے ہی سیکھی ہے۔
3:شوق شھادت اور شھادت کی ثقافت کو زندہ کرنا
خدا کی راہ میں شھادت وہ عظیم امتیاز ہے کہ جو دوسرے انسانی امتیازات اور مسلمان کے صالح اعمال سے بالاتر ہے ۔ اس مختصر زیارت میں کئی بار شھادت کے مفھوم کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جیسے : "السلام علی الحسین المظلوم الشھید "،اسی طرح :" بکرامتک اکرمتہ بالشھادۃ "۔ کیونکہ اگر معاشرے میں خدا کی راہ میں جھاد اور شوق شھادت نہ ہو اور لوگ مادی چیزوں میں غرق ہو جائیں تو سرانجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور یہ امام حسین علیہ السلام کے مقصد کے برخلاف ہے جو مقصد اسلامی معاشرے میں عزت کی زندگی کا درس دیتا ہے ۔امام فرماتے ہیں :" و ان تکن الابدان للموت انش فقتل امری بالسیف فی اللہ افضل "؛ اگر جسم موت کےلیے بنے ہیں تو خدا کی راہ میں تلوار سے شہید ہونا باعظمت موت ہے۔(مجلسی،1369: ج44 :ص374)
استاد شہیدمطھری لکھتے ہیں : امام حسین علیہ السلام اپنی عظیم شخصیت اور شھادت کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کے دلوں کے مالک بنے ہیں امام حسین علیہ السلام کے ذکر کی بقا کا راز یہ ہے کہ ایک طرف ان کا قیام منطقی اورعقلی ہے کہ جس کہ عقل اور منطق سے تایید ہوتی ہے اور دوسری طرف احساسات اور جذبات کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے(مطھری ،1374:122)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Add new comment