چکیده:عاشورا کے ایک اہمترین نکات میں سے جو چہلم کے ساتھ بھی مرتبط ہے ، امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی داستان ہے ۔
1: سرمبارک کو شام میں لایاجانا
تاریخی مصادر میں امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو شام لانے کےحوالے سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں ۔
الف: سرمبارک کا قافلہ کے ھمراہ شام لایاجانا
بعض مصادر نے نقل کیا ہے کہ سرمبارک کو قافلہ کے ھمراہ شام لایا گیا ۔ ابن حبان (متوفای 354 ق) اس بارے میں لکھتا ہے : پھر عبیداللہ بن زیاد نے حسین بن علی علیھمالسلام کے سر مبارک کو اھل بیت رسول کے اسیر بچوں اور عورتوں کے ساتھ شام روانہ کیا ۔ [1]
شیخ صدوق (متوفای 381 ق) نے بھی لکھا ہے : ثم امر عبیداللہ بالسبایا و راس الحسین علیہ السلام فحملوا الی الشام ۔[2]
خوارزمی کی روایت کے مطابق کہ جب سھل بن سعد کی شام میں داخل ہوتے وقت امام حسین علیہ السلام کی بیٹی سکینہ سے ملاقات ہوئی سھل بن سعد حضرت سکینہ سے درخواست کرتا ہے کہ اگر(اھلبیت کو) کسی چیز کی ضرورت ہے تو مجھے حکم دیجیئے۔حضرت سکینہ نے سھل سے کہا : جن کے ہاتھوں میں امام حسین علیہ اسلام کا سر مبارک ہے ان سے کہو کہ سروں کو اھل بیت سے آگے لے جائیں تا کہ شام والوں کی نگاہ سروں کو دیکھنے میں مشغول ہو جائیں اور اھل بیت کی عورتوں سے نگاہیں ہٹا لیں ۔ [3]
یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک قافلہ کے ساتھ شام میں داخل ہوا ۔
ابوحنیفہ دینوری (متوفای 382 ق) ،ابن اثیر اور سبط ابن جوزی کا بھی یہی نظریہ ہے کہ اھل بیت کے اسیر قافلہ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک بھی تھا ۔ [4]
سید بن طاووس امام سجاد علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مجھے اونٹ پر بٹھایا گیاجو صحیح چل بھی نہیں سکتا تھا حالانکہ مظلوم کربلا کا سر نیزے پر تھا اور عورتیں اور بچے بے پالان خچروں پر سوار ہمارے پیچھے تھے ۔چھوٹے بڑے بچے ہمارے پیچھے اورہمارے اردگرد نیزے تھے ۔ [5]
سید بن طاووس ایک اور جگہ پر یزید کا عبیداللہ کے خط کے جواب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جب عبیداللہ نے قیدیوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کا کیا کروں تو یزید نے عبیداللہ کو جواب دیتے ہوئے اسے حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے سروں کوامام حسین علیہ السلام کے اھل بیت کے ساتھ شام روانہ کرے ۔[6]
ب: اسیروں سے پہلے سرمبارک کا شام میں آنا ۔
ابن اعثم اور خوارزمی کا نظریہ یہ ہے کہ امام کے سرمبارک کو اھل بیت کے اسیر قافلہ کے دمشق پہنچنے سے پہلے شام لایا گیا ۔[7]
ج:اھل بیت کے شام میں داخل ہونے کے وقت سرمبارک کو بھی ملحق کرنا ۔
شیخ مفید اور طبرسی کے نظریہ کے مطابق سر امام کو شام بھیجنے کے چند دن بعد اھل بیت کو شام روانہ کیا گیا ۔لیکن شام میں داخل ہوتےوقت اس شخص سے ملحق ہوگئے جو سرمبارک کو لے کر چلا تھا ۔ [8]
البتہ احتمال ہے کہ امام کاسرمبارک اسیر قافلے کے ساتھ شام میں داخل کیا گیا ہو لیکن امام علیہ السلام کا سرمبارک اھل بیت سے پہلے یزید کے دربار میں لایا گیا کہ یہ احتمال وہی پہلا نظریہ بنتا ہے اور دوسرا نظریہ بھی اسی پر حمل ہو گا ۔
جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اگرچہ بعض کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں داخل ہوتے وقت سر مبارک امام ، اھل بیت کے ساتھ نہیں تھا لیکن پہلا نظریہ جس کے ذکر کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے یعنی دمشق میں داخل ہوتے وقت اھل بیت کے ساتھ ، امام کےسرمبارک کا ہونا ،زیادہ قوی ہے کیونکہ اس کو نقل کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اھل بیت کا قافلہ اور سرمبارک امام حسین علیہ السلام کس دن دمشق میں داخل ہوئے ؟
ابوریحان بیرونی ماہ صفر کے واقعات میں لکھتے ہیں: ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک دمشق لایا گیا ۔ [9]
قزوینی نے لکھا ہے :ماہ صفر کا پہلا دن بنی امیہ کی عید کا دن ہے کیوں کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک دمشق لایا گیا ۔[10]
کفعمی بھی کہتا ہے :ماہ صفر کے پہلے دن امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک دمشق لایا گیا ۔[11]
لیکن ان روایات کے مقابلے میں عماد الدین طبری کا نظریہ یہ ہے کہ 16ربیع الاول ( عاشور کے 66دن بعد) اھل بیت کا قافلہ دمش میں داخل ہوا ۔[12]
ابوریحان جو ایک طرف طبری پر سبقت زمانی بھی رکھتا ہے اور دوسرا نقل روایات میں دقت سے بھی کام لیتا ہے اس کا قول مقدم ہے اس کے ساتھ ساتھ قزوینی اور کفعمی کی روایات بھی اس کی تایید میں ہیں ۔
2:سرمبارک امام حسین علیہ السلام کا محل دفن
یہ کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک کہاں دفن ہے شیعہ اور سنی مصادر میں مختلف روایات بیان کی گئی ہیں یہاں تک کہ اس بارے میں چھ اقوال بیان کیے گئے ہیں ۔
پہلا قول : سرمبارک ،بدن مبارک کے ساتھ دفن ہے ۔
یہ شیعہ اور اھل سنت کا مشترک نظریہ ہے شیعہ علماء جیسے شیخ صدوق ، سید مرتضی ، فتال نیشاپوری ،این نما حلی ، سید بن طاووس شیخ بھائی اور علامہ مجلسی نے اسی نظریہ کو اختیار کیا ہے۔
شیخ صدوق اور ان کے بعد فتال نیشاپوری اس بارے میں لکھتے ہیں : علی بن حسین اھل بیت کے ساتھ شام سے نکلے اور امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو کربلا واپس لائے ۔[13]
سید مرتضی اس بارے میں کہتےہیں :روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک ان کے جسد اطہر کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ [14]
ابن شھر آشوب سید مرتضی کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد شیخ طوسی کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ اسی وجہ سے (یعنی سرمبارک کا جسد اطہر سے ملحق اور دفن کرنا )معصومین علیھم السلام کی طرف سے زیارت اربعین کی وصیت کی گئی ہے ۔[15]
ابن نما حلی نے بھی لکھا ہے : وہ قول جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ شھروں میں امام کے سرمبارک کو پھرانے کے بعد جسد اطہر کی طرف پلٹایا گیا اور جسد کے ساتھ دفن ہوا ۔[16]
سید بن طاووس نے لکھا ہے : روایت نقل ہوئی ہے کہ سر مبارک ،جسد اطہر کی طرف پلٹایا گیا اور کربلا میں جسد اطہر کے ساتھ دفن کیا گیا اور علماء کا طرز عمل اسی تناظر میں رہا ہے ۔[17]
علامہ مجلسی چہلم کے دن کی زیارت کے مستحب ہونے کی ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اسی دن سروں کو علی بن حسین کے توسط سے اجساد مطہرہ کی طرف پلٹایا گیا ۔ [18]ایک اور جگہ پر مختلف اقوال اور نظریات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :شیعہ علماء کے درمیان مشہور و معروف یہ ہے کہ امام علیہ السلام کا سرمبارک ان کے جسد اطہر کے ساتھ دفن ہے ۔[19]
ابوریحان بیرونی اس بارے میں لکھتے ہیں : بیس صفر کے دن سر مبارک کو جسد اطہر کے ساتھ ملحق اور اس کے ساتھ دفن کیا گیا ۔[20]
قرطبی لکھتا ہے :شیعہ کہتےہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک چالیس دن بعد کربلا پلٹایا اور بدن مطہر کے ساتھ ملحق کیا گیا اور وہ دن ان کے نزدیک مشہور و معروف ہے اور اس دن کی زیارت کو زیارت اربعین کا نام دیتے ہیں ۔[21]
قزوینی بھی کہتے ہیں :ماہ صفر کا پہلا دن بنی امیہ کے لیے عید کا دن ہے کیونکہ اسی دن امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو دمشق لایا گیا اور اسی مہینے کی بیس تاریخ کو اجساد مطہرہ کی طرف پلٹایا گیا ۔ [22]
مناوی لکھتا ہے :امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ اسلام کی شہادت کے چالیس دن بعد سر مبارک کو بدن مطہر کی طرف پلٹایاگیا اور کربلا میں دفن کیا گیا ۔[23]
دوسرا قول : امیرالمومنین علیہ السلام کی قبرمطہر کےساتھ دفن ہے ۔[24]
تیسرا قول : فرات کے کنارے مسجد رقہ میں ۔
چوتھا قول: جنت البقیع میں ان کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلااللہ علیھا کے ساتھ ۔
پانچواں قول :دمشق ۔
چھٹا قول :قاھرہ (مصر)۔[25]
ان اقوال اور نظریات کی تحقیق اور ان میں توجہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلا نظریہ یعنی سرمبارک کا بدن مطہر کے ساتھ ملحق ہونا مشہور اور قابل اعتماد نظریہ ہے اور شیعہ علماء کا عمل بھی اسی کا آئینہ دار ہے اس اعتبار سے یہ نظریہ قابل قبول ہے اور تاریخی روایات کی روشنی میں سر مبارک کو 20صفر سن 61ھجری کو پلٹایاگیا کیونکہ یہ الحاق، اھل بیت کا اسیری کے بعد کربلا واپس آنے سے جدا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ مشہور قول کی بنا پر یہ کام امام علی بن الحسین علیھماالسلام کے توسط سے انجام پایا ہے[26] اور کوئی تاریخی روایت ثابت نہیں کرتی کہ امام سجاد علیہ السلام اس موقع کے علاوہ کبھی کربلا آئے ہوں لہذا اھل بیت کا اسیری کے بعد کربلا آنا بھی چہلم کے دن ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] :محمد بن حبان بن احمد ابی حاتم تمیمی بستی، الثقات ، ج2،ص312۔ یزید بن معاویہ کے مدخل کے ذیل میں ۔
[2] :الامالی، مجلس31،ح3،ص230۔
[3] :مقتل الحسین ،ج2ص68۔
[4] :الاخبار الطوال ،ص260؛الکامل فی التاریخ ،تحقیق مکتب التراث ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ق؛ج2،ص576 اور تذکرۃ الخواص ،ص260و263۔
[5] :الاقبال، ج3،ص89۔
[6] :اللھوف،ص99۔
[7] :کتاب الفتوح،ج5،ص127تا129؛مقتل الحسین ج2،ص62۔
[8] :الارشاد،ج2،ص118؛اعلام الوری،ج1،ص473 اور مجلسی،بحارالانوار،ج45،ص130۔
[9] :ابوریحان محمد بن احمد بیرونی خوارزمی،الآثارالباقیۃ عن القرون الخالیۃ ،ص331۔
[10] :زکریا محمد بن محمود قزوینی،عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات،ص45۔
[11] :مصاح کفعمی ،ص510۔
[12] :عماد الدین حسن بن علی طبری، کامل بھائی،ج2،ص293۔
[13] :شیخ صدوق،الامالی، مجلس 31،ص232؛فتال نیشاپوری ، روضۃ الواعظین ، ص192؛ مجلسی ،بحارالانوار،ج45،ص140۔
[14] :رسائل المرتضی،ج3،ص130۔
[15] :مناقب آل ابی طالب، ج4،ص85؛ مجلسی ،بحارالانوار،ج44،ص199؛" قال الطوسی:و منہ زیارۃ الاربعین "۔
[16] :نجم الدین محمد بن جعفر بن نما حلی،مثیرالاحزان ،ص85۔
[17] :سید ابن طاووس،اللھوف،ص114۔
[18] :مجلسی،بحارالانوار،ج98،ص334۔
[19] :بحارالانوار،ج45،ص145۔
[20] :الآثارالباقیۃ عن القرون الخالیۃ ،ص331۔
[21] :محمد بن احمد قرطبی،التذکرۃ فی امورالموتی و امور الآخرہ ، ج2،ص668۔
[22] :زکریا محمد بن محمود قزوینی، عجائب المخلوقات والحیوانات و غرائب الموجودات ،ص45۔
[23] :عبدالرووف مناوی، فیض القدیر،ج1،ص205۔
[24] :ابن قولویہ،کامل الزیارات،ص84؛کلینی، الکافی،ج4،ص571و572؛ابوجعفرمحمد بن حسن طوسی،تھذیب الاحکام،ج6،ص35؛ابن شھرآشوب ،روضۃ الواعظین،ج4،ص85۔
[25] :سبط ابن جوزی،تذکرۃ الخواص ،ص 265و 266؛ سید محسن امین عاملی،اعیان الشیعہ ،ج1،ص626؛و ھمو، لواعج الاشجان، ص247؛محمد امین امینی،وہی،ج6،ص321 و337۔ قاضی طباطبایی نے اس موضوع کے بارے میں بیان کیے گئے تمام اقوال کی جانچ پڑتال اور تحلیل کے بعد پہلے نظریے کا دفاع کیا ہے سرمبارک ،جسد اطہر کے ساتھ دفن ہے ۔ ر۔ک : تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہدا علیہ السلام ۔ ص 303 کے بعد ۔
[26] :مجلسی، بحارالانوار، ج45،ص145 اور جلاء العیون ، ص407۔
Add new comment