چکیده:مقالہ ھذا میں امام مجتبی(ع) کی اخلاقی زندگی کو مورد تحلیل قرار دیتے ہوئے ان کی اخلاقی زندگی کے ایک پہلو زہد کی طرف اشارہ کیا ہے اور آخر میں مولا حسن کی زندگی کے اس پہلو میں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
امام حسن مجتبی (ع)کی زاہدانہ زندگی
اہلبیت طہار(ع) کی زندگانی کے سلسلے میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی بائیوگرافی پیش کی جائے یعنی انکی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، ازواج کی تعداد، اولاد کی تعداد، خلفائے وقت وغیرہ وغیرہ بیان کئےجائیں۔
دوسرے یہ کہ قرآنی طرز سے گفتگو کی جائے۔ قرآنی طرز یہ ہے: «قَد کَانَت لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فِی اِبرَاهِیم وَ الَّذَینَ مَعَهُ»[1] و «لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِاللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُوا اللهَ وَ الیَومَ الآخِرَ»[2] یعنی ہم انہیں نمونہ عمل کے عنوان سے پیش کریں۔
در اصل اہلبیت (ع) کی زندگی کے بارے میں کچھ بیان کرتے وقت جس چیز کو پیش کرنےکی ضرورت ہے اور جو معرفت کا باعث ہے وہ ان کی بائیوگرافی پیش کرنا نہیں ہے، ممکن ہے کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ امام حسن مجتبی (ع) کی تاریخ ولادت کیا ہے یا تاریخ شہادت کیا ہے؟ لیکن ان امورسے نا بلد ہونا عدم معرفت کی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جو روایت میں آیا ہے: "من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة " جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ( یہ معرفت بائیوگرافی کو جاننا نہیں ہے بلکہ ان کی عملی زندگی کی معرفت ہے)۔
مقالہ ھذا میں امام مجتبی(ع) کی اخلاقی زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ آپ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ بنے اور آپ کے نقش قدم پر چل کر ہم زیادہ سے زیادہ کامیابی سے سرخ رو ہوسکیں۔ اس مقالہ کی تنگی کی بناء پر آپ کی زندگی کے زہد کے پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے اس امید کے ساتھ کہ اہم اگر اس ایک پہلو کو بھی نمونہ عمل بنالیں تو ہماری نجات کے لئے کافی ہو گا۔
مرحوم شیخ صدوق امام جعفر صادق(ع) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ(ع) فرماتے ہیں:
حسن بن علی اپنے زمانے کے سب سے بڑے عابد اور زاہد تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ آپ جب حج خدا کو جاتے تو پیدل جاتے تھے اور کبھی کبھی پا برہنہ حج بیت اللہ کو تشریف لے لے جاتے۔
اور یہی وجہ تھی کہ جب آپ موت کو یاد کرتے تو خوب گریہ کرتے تھے۔، قبر کی تنہائی کو یاد کرتے تو خوب گریہ کرتے تھے، قیامت کے حساب و کتاب کو یاد کرتے تو خوف گریہ فرماتے تھے، پل صراط سے گذرنے کا منظر سوچتے تو خوب گریہ کرتے تھے، جب محشر میں خدا وند منان کے سامنے پیش ہونے کی منظر کو یاد کرتے تو اتنا گریہ کرتے کہ روتے روتے آپ زمین پر گر جایا کرتے تھے، جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کا پورا بدن کانپ نے لگتا تھا، جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا تو آپ مضطرب ہوجاتےاور سرگرداں ہوتے ہوئے خدا وند عالم سے جنت میں جانے کی خواہش اور جہنم سے امان کی دعا فرماتے تھے، جب قرآن قرآن کی تلاوت فرماتے اور«یا ایها الذین آمنوا» پر پہونچتے تو «لبیک اللهم لبیک »... فرماتے تھے، اور ہمیشہ جب بھی آپ کو کوئی دیکھتا تو آپ کو ذکر خدا میں مشغول پاتا ، آپ دنیا سب سے بڑے سچے اور کلام کرنے میں سب سے فصیح تھے۔[3]
مرحوم ابن شھر آشوب اپنی کتاب مناقب میں محمد بن اسحاق سے روایت کرتے ہوئےکہتا ہے:
[ما بلغ احد من الشرف بعد رسول الله(ص)ما بلغ الحسن] رسول اسلام کے بعد مقام شراف تک سوائے حسن بن علی کے کوئی نہیں پہنچا۔
اس حدیث کو ادامہ دیتے ہوئے راوی کہتا ہے:
[و لقد رایته فی طریق مکة ماشیا فما من خلق الله احد رآه الا نزل و مشی حتی رایت سعد بن ابی وقاص یمشی ] [4]
میں نے حسن بن علی(ع) کو مکہ کے راستہ میں پاپیادہ مشاہدہ کیا اور کوئی بھی خلق خدا نہیں تھی جو اس چیز کا مشاہدہ کرے مگر یہ کہ آپ اپنی سواری سے اترتے تھے اور اور پا پیادہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہوجاتے یہاں تک کہ سعد بن وقاص نے جب آپ کو اس عالم میں دیکھا تو آپ کے احترام میں وہ بھی اپنی سواری سے اتر گیا اور پیدل چلنے لگا۔
علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں امام حسن علیہ السلام کا یہ دستور تھا کہ آپ نماز صبح سے فارغ ہونے کے بعد سے طلوع آفتاب تک کسی سے گفتگو نہیں کرتے تھے بس یاد خدا میں مصروف رہتے تھے۔
آپ نے تقریبا پچیس بار حج بیت اللہ پاپیادہ کیا ہے۔
اور دو بار اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کردیا۔(اپنی دولت کا نصف راہ خدا میں صرف کردیا)[5]
مقالہ مذکور سےمندرجہ ذیل نتیجے نکلتے ہیں ۔
۱۔ تمام محبان اہلبیت کو بااخلاق ہونا چاہئے۔
2۔ زہد کی صفت کو اپنے اندر ملکہ بنانا چاہئے۔
۳۔ جتنا ممکن ہوسکے زاہدانہ زندگی بسر کرنا چاہئے۔
خدا وند منان ہم تمام لوگوں کو مولا حسن (ع)کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الممتحنہ،۴۔
[2] الاحزاب۔۲۱
[3] .بحار الانوار، ج 43، ص 331
[4] مناقب آل ابیطالب، ج 4، ص 7
[5] بحار، ج 43، ص349
Add new comment