’’صحیح بخاری‘‘ میں’’ عمر بن خطاب‘‘ کی زبانی سقیفہ کا ماجرا

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: تاریخی حقائق کو روشن کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،اور جو حقائق مستدل طور سے پیش کئے گئے ہوں انکو قبول کرنا ہر صاحب فہم کا فرض ہے۔ اس نوشتہ میں اسی طرح کی ایک تاریخی حقیقت کو پیش کیا گیا ہے۔

’’صحیح بخاری‘‘  میں’’ عمر بن خطاب‘‘ کی زبانی سقیفہ کا ماجرا

’’صحیح بخاری‘‘  میں’’ عمر بن خطاب‘‘ کی زبانی سقیفہ کا ماجرا

صحیح بخاری ،جلد نمبر۸،صفحہ ۲۶،حدیث ۶۸۳۰،کتاب الحدود،باب ۳۱ میں ایک طولانی روایت ہے جو خود خلیفہ دوم عمر بن الخطاب سے نقل ہوئی ہے،کہ جس میں خلیفہ دوم نے سقیفہ بنی سعدہ کا ماجرا بیان کیا ہے۔
تاریخ کی مختلف کتابیں جیسے تاریخ طبری، ابن اثیر، بلاذری ابن اسحاق ، ابن هشام ، وغیرہ میں سقیفہ کا واقعہ نقل تو ہوا ہے لیکن کسی ایسے شخص سے نہیں جو خود وہاں موجود ہو ۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی ایسے شخص کے ذریعہ سقیفہ کا ماجرا بیان ہوا ہو جو خود وہاں موجود تھا اور وہ بھی کوئی اور نہیں خود خلیفہ دوم نے واقعہ بیان کیا ہے۔تقریبا سن ۲۳ہجری  میں خلیفہ دوم نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں یہ ماجرا بیان فرمایا ،یعنی سقیفہ کے ماجرے کے ۱۰ یا ۱۲ سال بعد، اور اس روایت  کے راوی  جناب ابن عباس  ہیں،جو سبھی کے نزدیک معتبر  ہیں۔
اس روایت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ: خلیفہ دوم عمر بن الخطاب مکہ میں تھے،اصحاب میں سے کچھ نے کہا منجملہ ’’جناب عمار‘‘ ، کہ اگر عمر بن الخطاب مر جائیں تو ہم علی بن ابی طالبؑ کے ساتھ بیعت کر لیں گے،یہ بات جب خلیفہ دوم  کو پتہ چلی تو  بہت ناراض ہوئے اور چاہا کہ وہیں مکہ مکرمہ میں تقریر کریں اور ’عمار‘ کو جواب دیں لیکن بعض افراد کے منع کرنے پر رک گئے اور جب مدینہ واپس آئے تو  نماز جمعہ کے خظبہ میں حمد و ثنائے الٰھی کے بعد، کہا:

بعض لوگ کہہ رہے ہیں:[ لو مات عمر بايعت] اگر عمر  مر جائے تو ہم فلاں  کے ساتھ بیعت کر لیں گے اور  عمر اور ابوبکر کی  بیعت ایک  ناگہانی بغیر مشورت کے شر آفرین کام تھا۔ (البتہ عمر خود یہ کہ چکے تھے کہ:[ كانت بيعت ابي بكر فلتة و قي الله شرّها] یعنی : ابو بکر کی بیعت فلتة تھی خدا اسکے شر سے  محفوظ رکھے۔ (فلتة کہتے ہیں کسی ایسے کام کو جو ایک دم سے ناگہانی طور پر  بغیر مشورت  کےہو جائے اور وہ کام  جوشر آفرین ہو،ایسا کام جسکی بنیاد نہ ہو۔)
پھر عمر کہتے ہیں: [  إِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ أَنَّ الأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ،] جب پیغمبر اسلام کی وفات ہو گئی  تب سارے کے سارے انصار  میرے مخالف ہو گئے اور  میری مخالفت میں سقیفہ  بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے۔
[وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْر] علی اور زبیر اور  انکے ساتھیوں نے بھی میری مخالفت کی اور مھاجرین ابو بکر کے ساتھ ہو گئے۔
(البتہ یہ ایک ظریف بات ہے جو بخاری نے نقل کی  ہے کہ عمر فرماتے ہیں’’ علی اور زبیر اور  انکے ساتھیوں نے بھی میری مخالفت کی اور مھاجرین ابو بکر کے ساتھ ہو گئے ‘‘ جب کے علی اور زبیر مھاجرین میں سے تھے لیکن ابو بکر کے ساتھ نہیں ہوئے تھے)۔

خلیفہ دوم  مزیدکہتے ہیں: یہاں تک کہ میں اور ابوبکر  نے سقیفہ کی طرف جانے کا عزم کیا اور چل دئے ،راستہ میں دو اور صالح لوگوں سے ملاقات ہوئی (بخاری نے ان دو لوگوں کے نا م حديث 2421پر بیان کئے ہیں) ہم سب وہاں پہنچ گئے  ،میں نے ایک مقالہ وہاں پڑھنے کے لئے تیار کیا تھا لیکن ابو بکر نے پڑھنا  شروع کر دیا  جب ہم وہاں پہنچے تو  دیکھا۔

[مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ ...فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الإِسْلاَمِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ ، وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْر]
ایک شخص لحاف میں لپٹا ہوا ہے ۔ہم نے پوچھا ’’من ھذا‘‘ یہ لحاف میں لپٹ ہوا شخص کون ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ  ’سعد بن عبادہ ‘ہے انہیں بہت شدید بخار ہے۔ ہم وہاں بیٹہ گئے یہاں تک کہ انصار میں سے ایک اٹھا اور تقریر شروع کی اور کہا : ہم انصار اللہ ہیں ہم اسلام کی اساس ہیں ،اور تم مہاجرین کم اور پست ہو تم کو تمہاری قوم نے  مکہ سےنکال دیا اور ہماری حکومت کو چھین نا چاہا۔
جب اسکی بات ختم ہوئی تو میں نے بولنا چاہا ویسے ہی ابوبکر نے مجھے روک دیا اور خود بولنا شروع کیا،مجھے اچھا نہیں لگا کہ ابوبکر کی مخالفت کروں ۔

ابو بکر نے کہا:[ فقَالَ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْر فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الأَمْرُ إِلاَّ لِهَذَا الْحَىِّ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا] جو باتیں  آپ نے فرمائیں اپنے  بارے میں وہ سب درست ہیں اور ان فضائل کے حق دار ہیں ،لیکن یہ امر خلافت سوائے قریش کے کسی اور کے لئے نہیں ہے، یہ قریش خاندانی اور نسلی شرف رکہتے ہیں تمام عرب پر۔

ابو بکر نے کہا:[ فقَالَ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْر فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الأَمْرُ إِلاَّ لِهَذَا الْحَىِّ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا] جو باتیں  آپ نے فرمائیں اپنے  بارے میں وہ سب درست ہیں اور ان فضائل کے حق دار ہیں ،لیکن یہ امر خلافت سوائے قریش کے کسی اور کے لئے نہیں ہے، یہ قریش خاندانی اور نسلی شرف رکہتے ہیں تمام عرب پر۔
[...وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ] ابوبکر کہتے ہیں : میں ان دو لوگوں کی تجویز پیش کرتا ہوں  ایک ’’ابو عبیدہ جراح‘‘ دوسرے ’’عمر ابن خطاب‘‘ ان دونوں میں سے جسکی چاہے  بیعت کرئیے اور رسول اکرم کا خلیفہ معین کریئے۔
یہاں پر آپ قارئین محترم کی توجہ ایک بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جو حضرات  اس بات کا  دعویٰ  کرتے ہیں کہ ،پیغمبر اکرم نے اپنی جگہ پر نماز پڑھانے بھیجا اور لوگوں سے کہا کہ میرے بعد  خلیفہ ابوبکر ہیں،یا کچھ آیات  کو تحریف کر کے پیش کرتے ہیں کہ ابوبکر کی فضیلت میں ہیں یا بعض روایات کو پیش کرتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں،اگر واقعا ابوبکر کو رسول اکرم نے اپنا خلیفہ بنایا تھا اور رسول کی طرف سے پہلے سے معین تھے تو کیا  رسول کی بات کو کاٹ کر لوگوں کو  خلافت کے دو نام  تجویز کرنا  صحیح تھا ؟!
عمر مزید بیان کرتے ہیں[فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا... كَانَ وَاللهِ أَنْ أُقدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي]ابو بکر کی ساری باتیں اچھی تھیں کوئی بات مجھے بری نہیں لگی مگر یہ بات کہ ’عمر یا ابو عبیدہ کو بیعت کے لئے انتخاب کیا جائے‘،خدا کی قسم  مجھے ڈر ہے کہ اگر میں خلیفہ بننے کے لئے آگے بڑھا  اور لوگوں سے بیعت لے لی تو مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
[فَكَثُرَ اللَّغَطّ وَارْتَفَعَتِ الاَصْوَاتُ]
جب بات یہاں تک پہنچی تو مہاجرین اور انصارمیں لڑائی شروع ہو گئی اور انصار نے اعتراض شروع کر دیا اور چی میگویاں اتنی بڑہ گئیں کہ آوازیں بلند ہو گئیں ۔
قارئین گرامی ! یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے اور وہ یہ کہ جب رسول اکرم ﷺ ابو بکر کو خلیفہ بنا چکے تھے تو یہ  اختلاف خلیفہ تعیین کرنے پر کیوں وجود میں آیا؟اور جس طرح سے کہا جاتا ہے کہ سقیفہ میں بزرگان جمع ہوئے  تھے تاکہ  مسائل حل کئے جائیں اور ابو بکر کو خلیفہ انتخاب کیا گیا تو ،یہ تو خود صحیح بخاری کی روایت ہے جو بتا رہی ہے کہ وہاں شدید اختلافات ہوئے۔
عمر بن خطاب کہتے ہیں: یہاں تک کہ بحث اور لڑائی زیادہ ہونے لگی تو مجھے ایسا لگا کہیں یہ اور زیادہ نہ ہو جائے تو میں نے[ فَرِقْتُ مِنَ الاِخْتِلاَفِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْر] ابوبکر سے کہا اپنا ہاتھ آگے بڑھائےتاکہ میں بیعت کروں، انہونے ہاتھ آگےبڑھایا اور میں نے بیعت کی میرے بعد مہاجرین نے بیعت کر لی اور انکے بعد انصار نے بیعت کر لی۔
اور  پھر[وَ نَزَوْنَا عَلَي سَعْدِ بْنِ عُبَادَهَ] ہم سب سعد بن عبادہ (کہ جو انصار کی طرف سے خلیفہ بننے کے لئے  کھڑا ہوا تھا)پر حملہ آور ہو گئے،یہاں تک کہ کسی نے کہا [فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَه] کہ تمہارے حملے سے سعد بن عبادہ مر گیا،تو میں نے کہا [فَقُلْتُ قَتَلَ اللَهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَه] خدا مارڈالے سعد بن عبادہ کو۔
قارئین گرامی! جو حضرات بعض صحابہ کے لئے بڑی بڑی باتیں کر تے ہیں آئیں اور دیکھیں کس طرح  یہ ایک دوسرے کے ساتھ مار پیٹ کر رہے ہیں  اور کوس رہے ہیں یہاں تک کہ عمر خود کہہ رہے ہیں’’ وَ نَزَوْنَا عَلَي سَعْدِ بْنِ عُبَادَهَ فَقُلْتُ قَتَلَ اللَهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَه ‘‘ ۔

فیصلہ صاحبانِ حق و انصاف خود کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.alhassanain.com/persian/articles/articles/beliefs_library/ide...

 

 

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
16 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 95