اسلام کی نظر میں ہجرت کی قسمیں

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: مقالہ ھذا میں ہجرت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اسکی اقسام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ ہجرت فی سبیل اللہ کے معنا ہجرت مکانی نہیں ہے بلکہ لقاالی اللہ ہے چاہے جیسے بھی ہو اگر یہ قصد و نیت انسان کے دل میں ہے وہ ہجرت رہے گی ورنہ نہیں

اسلام کی نظر میں ہجرت کی قسمیں

اسلام کی نظر میں ہجرت کی قسمیں

پروردگار عالم کی راہ میں ہجرت کرنا یا با الفاظ دیگر اپنے وطن اور عزیزو اقارب سے خدا کی رضایت و خوشنودی کی خاطر دوری کی صعوبتوں کو برداشت کرنا خداوند عالم کے واقعی بندہ ہونے کی پہچان ہے ،ہجرت کی مدح و ستائش میں قرآن کریم میں بہت سی آیتیں موجود ہیں قرآن مجید میں ٣١مقامات پر ہجرت اور اسکے مشتقات کا استعمال ہوا ہے اور بعض آیتوں میں ہجرت کا تذکرہ ایمان ،جہاداور صبر کے ساتھ کیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت میں ''اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَهَاجَرُوْا ''[1] جو بھی راہ خدا میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پائے گا یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہجرت کا تعلق ایمان ،جہاد اور صبر سے بہت گہرا ہے اس کے علاوہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ انسان اور معاشرے کی ترقی اور تکامل میں ہجرت کا ایک اہم کردار ہے خداوند عالم ہجرت کی فضیلت کے حوالے سے فرماتا ہے: '' ً وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّه''[2] جو اپنے گھر سے خدا اور رسول کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکلے اس کے بعد اسے موت آجائے تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے''۔

ہجرت کی قسمیں

علم حاصل کرنے کے لئے ہجرت کرنا: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «وَما کانَ الْمُؤمِنُون لِیَنْفِرُوا کافَّةً فَلَوْلا نَفَر مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِیَتَفَقَّهُوا فی الدّین[3] صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی ہے کہ دین کا علم حاصل کرے ۔۔۔۔۔
متعدد روایات میں مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کا مختلف انداز میں حکم دیا گیا ہے یہاں تک اس کے لئے دنیا کے دور ترین نقطہ جہان  کی طرف ہی کیوں نا جانا پڑے،  چنانچہ ارشاد نبوی (ص) ہے : «اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّين[4]‏ علم حاصل کرو چاہے اس کی خاطر تمہیں (دنیا کے دور ترین خطہ) چین ہی کیوں نا ہجرت کرنا پڑے۔اس مبارک ہجرت میں خداوند عالم کئی ہزار فرشتوں کو اس کی ہمراہی پر مامور کرتا ہے جیسا کہ پیغمبر اسلام(صلی‏ الله ‏علیه ‏و‏ آله) فرماتے ہیں:«مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِهِ یَطْلُبُ عِلْما شَیّعَهُ سَبْعُونَ اَلْفَ مَلَکٍ یَسْتَغْفِرُونَ لَهُ.جب کوئی شخص طلب علم کی غرض سے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو خداوند کریم ستر ہزار فرشتوں کو اسکی ہمراہی کے لئے مامور کرتا ہے اس عالم میں کہ وہ تمام فرشتے اسکی ہمراہی کے ساتھ ساتھ اسکی مغفرت کی دعا بھی کرتے ہیں۔[5]

دین کی حفاظت کی خاطر ہجرت کرنا: پیغمبر اسلام (صلی‏ الله ‏علیه ‏و‏ آله)ارشاد فرماتے ہیں’’مَنْ فَرَّ بِدینِهِ مِنْ اَرْضٍ اِلیَ اَرْضٍ وَاِنْ کانَ شِبْرا مِنَ الاَْرْضِ اِسْتَوْجَبَ الْجَنَّةَ ‘‘جو شخص بھی دین اسلام کی حفاظت کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا ہے تو خداوند کریم اسے ہر ہر قدم پر ایک جنت عطا کرتا ہے۔[6]

ظالموں کے چنگل سے ہجرت کرنا : قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: « وَ الَّذينَ هاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ لَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُون»اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد راہ خدا میں ہجرت اختیار کی ہے ہم عنقریب دنیا میں بھی ان کو بہترین مقام عطا کریں گے اور آخرت کا اجر تو یقینا بڑا ہے اگر یہ لوگ اس حقیقت سے باخبر ہوں۔[7]

گناہ سے ہجرت کرنا  (باطنی ہجرت):حقیقت میں یہ والی ہجرت ظلمت سے نور کی طرف، کفر سے ایمان کی طرف اورخدا کی نافرمانی سے اسکی اطاعت کی طرف ہجرت کرنا ہے، جیسا کہ ہم احادیث میں پڑھتے ہیں وہ مھاجرین کہ جن کے جسموں نے تو ہجرت کی ہے مگر انکے باطن اور روح نے ہجرت نہیں کی ہے در حقیقت ایسے لوگ مھاجرین کی صف میں نہیں ہے لیکن اسکے برعکس جن کی روح اور باطن نے ہجرت کی ہے (یعنی گناہ سے نیکیوں کی طرف آگئے ہیں) گرچہ انھوں نے مکانی سفر نہیں کیا ہے ایسے افراد مھاجرین کی صف میں ہوں گے۔

امیر المومنین ارشاد فرماتے ہیں: «وَیَقُولُ الرَّجُلُ هاجَرْتُ وَلَمْ یُهاجِرْ اِنَّمَا الْمُهاجِرُونَ الَّذینَ یَهْجُرُونَ السَّیِّئاتِ وَلَمْ یَأْتُوا بِها. جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے مھاجرت کی ہے در حالیکہ اس نے کوئی ہجرت نہیں کی ہے واقعی مھاجر وہ ہے جس نے گناہ سے ہجرت کی اور دوبارہ اسکے ارتکاب کا دور دور سے خیال نہ ہو.[8]

  خدا کی طرف ہجرت کرنا:قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی زبانی (یا دوسرے قول کے مطابق حضرت لوط کی زبانی) ارشاد ہوتا ہے: « وَ قالَ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى‏ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزيزُ الْحَكيمُاور انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہاہوں کہ وہی صاحب عزت اور صاحب حکمت ہے۔[9]

ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ ہجرت مذکورہ ہجرت میں سے کوئی ایک ہو یعنی ظالموں کی طرف سے ہجرت یا دین کی حفاظت کے لئے ہجرت۔۔یا مراد ظاہری آیت کا ہی ہو یعنی خدا کی طرف ہجرت کرنا تاکہ اسکے ذریعہ نبوت کے مقام یا بلند مقام تک پہونچ سکے  وغیرہ۔۔۔

حوالہ جات
[1] الانفال/72۔
[2] النسا/100۔
[3] التوبہ /۱۲۲۔
[4] وسائل الشیعہ، ج27، ص27۔
[5] امالی للطوسی، ص182۔ و بحار الانوار، ج1، ص 170۔
[6] بحار الانوار ج19، ص31۔
[7] النحل/41
[8] بحار الانوار، ج68، ص 232،  و سفینۃ البحار، ج8، ص628۔
[9] العنکبوت/26

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67