چکیده:مقالہ ھذا میں صلہ رحمی کی اہمیت کو اسلام کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے نیز صلہ رحم کرنے والے کی کیا جزا اور قطع رحم کی کیا سزا ہے مقالہ مذکورہ میں آیات و روایات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
اسلام کی نگاہ میں صلہ رحمی کی اہمیت
اسلام انسانوں کا ایک انتہائي باہمی رحم و کرم اور عطف و مہر بانی والا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی قیادت و سیادت محبت و بھائی چارے کے ہاتھ میں ہو ۔ اور خیر و بھلائی اور عطا و کرم کا اس پر راج ہو ۔ جو کہ اللہ کے خوف و تقوی اور صلہ رحمی کے نتیجہ میں سعادت و خوشحالی پاتا ہے ۔ اسلام نے خاندان کی جڑیں مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو پائدار بنانے کا خاص اہتمام کیا ہے ۔
’’صلہ‘‘ کے لغوی معنیٰ ملانا اور پیوند لگانے کے ہیں، لیکن عام اصطلاح میں اس کے معنیٰ ہیں اپنے اعزاء واقارب کے ساتھ احسان اور اچھے سلوک کامعاملہ کرنا اور ان کو عطاء اور بخشش اور اپنی مالی واخلاقی مدد واعانت کے ذریعہ فائدہ وراحت پہنچانا ۔ ’’رحمی‘‘ کا لغوی معنیٰ مہربانی اورشفقت کے ہیں لیکن عام ا صطلاح میں اس کے معنیٰ مہربانی اور شفقت کا معاملہ کرنا ہیں۔
اللہ کی توحید اور والدین کی اطاعت کے حکم کے ساتھ جس چيز کا حکم دیا گیا وہ یہی صلہ رحمی ہی ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :.اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بنائو اور والدین کے ساتھ نیک برتائو کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں ، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ دور کے ہمسایہ، پہلو نشین، مسافر غربت زدہ، غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتائو کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔۔[1]
صلہ رحم ، چاہے ایک گھونٹ پانی کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : صل رحمك و لو بشربة من ماء و افضل ما يوصل به الرحم كف الاذى عنها: صلہ رحم کرو چاہے شربت کے پانی ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو، اور اس سے بہتر دوسروں کو اذیت دینے سے پرہیز کرو ۔[2]۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحم کرنے سے حساب آسان ہوجاتا ہے ،اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : والذین یصلون ما امراللہ۔[3]
صدقہ اورقرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی:
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر مقدم ہیں چنانچہ ارشاد الہی ہے :
يَسْئَلُونَكَ ما ذا يُنْفِقُونَ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبينَ وَ الْيَتامى وَ الْمَساكينِ وَ ابْنِ السَّبيلِ وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ " لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ۔ آپ( ان سے ) کہہ دیں کہ بھلائی ( مال ) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لۓ ہے " ۔[4]
قطع رحمی گناہ کبیرہ ہے:
قطع رحمی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو لعنت و تباہی اور ھلاکت کی وعید سنائي گئی ہے :
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَكُم أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمى أَبْصارَهُمْ " اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمھیں حکومت و اقتدار حاصل ھو جاۓ تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھن لی ہے " ۔[5]
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غیرب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنےدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] النساء 36
[2] الکافی ج،۲، ص ۱۵۱۔
[3] آداب معاشرت ، ترجمہ جلد ۱۶ ، بحار الانوار، ج ۱، ص ۶۴ و منھج الیقین، ص۴۷۱۔
[4] البقرہ : 215
[5] محمد : 22 ۔ 23
Add new comment