چکیده: فقیہ معظم سید کاظم طباطبائی اپنی کتام العروۃ الوثقی میں فرماتے ہیں :"لا اشکال فی نجاسۃ الغلاۃ" یعنی غالیوں کے نجس ہونے میں کسی قسم کا اشکال اور اعتراض پایا نہیں جاتا۔
سید الفقھاء سید ابو القاسم الخوئی اپنی فقہی مجموعہ میں جسکانام فقہ الشیعہ ہےاس مجموعہ کی کتاب طہارت کی تیسری جلد میں اس حکم کی تشریح اور تفسیر اس طرح فرماتے ہیں :" غالی اپنے اعتقادات کی بنا پر مندرجہ اقسام میں تقسیم پائیگا۔
الف:غالی وہ ہوتا ہے جو امیر المومنین یا آئمہ اطہار علیہم السلام کی الوہیت اور ربوبیت کا اعتقاد رکھتا ہو، یعنی اسکا عقیدہ اس طرح ہو کہ امام علیہ السلام مجسم رب ہیں ، آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور امام قدیم اور واجب ہیں۔اگر یہ غالی امام کے علاوہ کسی اور کوا پنا خالق اور صانع نہ مانے پھر وہ بغیر کسی شک و شبہ کےکافر ہے،یہ حکم اس غالی کے لئے ہے جو سونچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو ورنہ اگر وہ دیوانہ اور مجنون ہو پھر اس پر کوئی حکم جاری نہیں ہوگا۔اگر وہ غالی خدا کے ساتھ امام علیہ السلام کو بھی اپنا خالق جانے پھر وہ مشرک ہے،چونکہ کسی شخص کے کافر ہونے یا مشرک ہونے میں یہ فرق نہیں ہے کہ وہ شخص امیرالمومنین علیہ السلام کی الوہیت کا یا کسی مجسمہ کی الوہیت کا یا کسی اور شخص کی الوہیت کا اعتقاد رکھے۔اگر غالی یہ اعتقاد رکھے کہ امیرا لمومنین یا آئمہ اطہار خدا کی ذات میں سما گئے ہیں پھر وہ کافر ہے چونکہ اسنے ضرورت دین کا انکار کیا ہے،اس لئے کہ حکم عقل اور شریعت مقدسہ میں یہ چیز واضح طور پر ثابت ہے کہ خدا کی ذات پاک اور منزہ ہے کہ وہ ایسے بشر کے وجود میں سماجائے جو کھاتا ہو،سوتا ہو اور دیگر مخلوقات کی طرح کاموں کو انجام دیتا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ عقیدہ کی نسبت غالیوں کی جانب صحیح ہو،پھر وہ یا کافر ہیں یا مشرک ہیں یا ضرورت دین کےمنکر ہیں اور ہر حال میں بغیر کسی شک و شبہ کے وہ نجس ہیں۔
ب:غالی جسکا عقیدہ یہ ہو کہ خدا نے اپنی ساری تشریعی اور تکوینی امور جیسے خالقیت،رازقیت،زندگی اور موت کا دینا اور دیگر تکوینی امور کو امیر المومنین یا آئمہ اطہارعلیہم لسلام کے حوالہ سونپ کراس طرح خلقت سے کنار گیر ی اختیار کرے جس طرح ایک بادشارہ اپنی ساری سلطنت کو اپنے وزیر کے حوالے سونپ کر کنارہ گیر ی اختیا ر کرتا ہے،پھر وہ غالی تفویض کے عقیدہ کے حامل ہوگا ۔اگرچہ یہ عقیدہ خدا کی ذات میں کفر کا سبب نہیں بنتا لیکن یہ عقیدہ ضرورت دین کے مخالف ہے،چونکہ شریعت مقدسہ میں یہ چیز واضح طور پر ثابت ہے کہ تشریعی اور تکوینی امور خدا سے مخصوص ہے جسطرح خدا سورہ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:"جان لو کہ خلق اور امر خدا کے لئے ہے،خدا کی ذات مبارک ہے اور وہ عالمین کا رب ہے" اور خدا سورہ رعد میں ارشاد فرماتا ہے:"کہو اے رسول خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہ واحد اور قھار ہے"۔ایسے عقیدہ کے حامل غالی کا کافر ہونا ضرورت دین کے انکار کے بناپر ہوگا۔اس مسئلہ میں دو نظریہ پائے جاتے ہے،پہلا نظریہ کے مطابق اس عقیدہ کا حامل غالی کافر ہے چاہے وہ علم رکھتا ہو کہ اسکا یہ عقیدہ ضرورت دین کے مخالف ہے یا علم نہ رکھتا ہو،دوسرے نظریہ کے مطابق یہ غالی اس صورت میں کافر ہوگا جب وہ جانتا ہو کہ اسکا یہ عقیدہ ضرورت دین کے مخالف ہے،اگر یہ انسان نہیں جانتا کہ اس طرح کا عقیدہ ضرورت دین کے مخالف ہے پھر وہ کافر نہیں ہوگا۔
ج:اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ آئمہ اطہار علیم السلام خدا کے مکرم بندے ہیں اور اشرف مخلوقات ہیں،خدا انہیں تمام مخلوقات پر کرامت اور فضیلت بخشی ہےپھر انہیں اپنے فیض کا واسطہ قرار دیا ہے،یعنی خدا کا فیض چاہے وہ تشریعی امورکی صورت میں ہو یا تکوینی امور کی صورت میں ہو،اہلبیت علیہم السلام کےواسطہ سے ہمیں میسر ہوتی ہے،یہ عقیدہ عین توحید ہے چونکہ اہلبیت علیہم السلام تشریعی اور تکوینی امور کو خدا کے اذن اور اسکی قدرت سے انجام دیتے ہیں جس طرح حضرت ازرائیل علیہ السلام خدا کے اذن اور اسکی قدرت سے قبض روح کرتے ہیں یا حضرت میکائیل علیہ السلام خدا کے اذن اور اسکی قدرت سےسارے عالم کا رزق پہنچاتے ہے یا جسطرح حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے اذن اور اسکی قدرت سے مریضوں کو شفا دیتے تھے اور مردوں کو زندہ کرتے تھے۔اسطرح کا عقیدہ ، نہ انکے رب ہونے کو ثابت کرتا ہے اور نہ خداکا اپنے سارے امور کو انکے حوالہ سونپنے کو ثابت کرتا ہے، بلکہ اس عقیدہ کا شمار غلو حسن کے زمرہ میں ہوگا اور اس عقیدہ پر ثبات قدمی ضروری ہے،چونکہ نہ اس عقیدہ میں کفر و شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے اور نہ ہی تفویض کا "۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع
سید الفقھاء ابوالقاسم الخوئی
Add new comment