نبی کریم ؐسے جناب خدیجہ کی شادی

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:مسلمانوں پر حضرت خدیجہ کا بڑا احسان ہے -حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ کي پہلي زوجہ اور پہلي مسلمان خاتون ہيں ، آپ حسب ونسب  اور گھرانے کے  لحاظ سے  جزيرۃ العرب کي ايک ممتاز خاتون تھيں اور از نظر کمال وجمال آپ اپنےزمانے  کي خواتين  کي سردار تھيں۔

نبی کریم ؐسے جناب خدیجہ کی شادی

حضرت خدیجہ (س) اپنے ماں اور باپ دونوں کی طرف سے جزیرۃ العرب کے شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ آپ کمال اور فہم و ادراک کا برجستہ نمونہ تھیں کہ جن کی مثال مردوں اور عورتوں میں بہت کم نظر آتی ہے ۔

 خداوند عالم کی مشیت تھی کہ آپ حرم نبوت کی بے بدیل بانو، آسمان امامت و ولایت کے گیارہ ستاروں کی ماں اور عقل، ادب، حکمت، بصیرت اور معرفت میں ممتاز اور نابغہ ہوں ۔

 جی ہاں، وہ خدیجہ تھیں، طاہرہ تھیں، قریش کے خواتین کی سردار اور اسلام میں ان چار خواتین میں سے ایک جو تمام خواتین جنت پر فضیلت رکھتی ہیں ۔ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے لیے اللہ کی عظیم نعمت اور رحمت تھیں ۔

 ایسے مرد کے لیے جو سماج میں، بڑے بڑے کارنامے انجام دینے میں مشغول ہو اور عظیم مقاصد رکھتا ہو، سکون پہنچانے والی سب سے بہترین چیز اس کی ہوشیار، عقلمند، مہربان اور دلسوز زوجہ ہوا کرتی ہے ۔

مسلمانوں پرآپ کا بڑا احسان ہے -حضرت خديجہ سلام اللہ عليہا پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ کي پہلي زوجہ اور پہلي مسلمان خاتون ہيں ، آپ حسب ونسب  اور گھرانے کے  لحاظ سے  جزيرۃ العرب کي ايک ممتاز خاتون تھيں اور از نظر کمال وجمال آپ اپنےزمانے  کي خواتين  کي سردار تھيں۔

جب آنحضرت (ص) کی عمرپچس سال کی ہوئی اورآپ کے حسن سیرت،آپ کی راستبازی، صدق اوردیانت کی عام شہرت ہوگئی اورآپ کو صادق و امین کا خطاب دیا جاچکاتوجناب خدیجہ بنت خویلد نے جو انتہائی پاکیزہ نفس، خوش اخلاق اورخاندان قریش میں سب سے زیادہ دولت مندتھیں ایسے حال میں اپنی شادی کا پیغام پہنچایاجب کہ ان کی عمرچالیس سال کی تھی پیغام عقدمنظور ہوا اورحضرت ابوطالب نے نکاح پڑھا[1] ۔

حضرت خدیجہ کی زندگی میں  برجستہ و  درخشندہ ترین  پہلو  آپ  کی حضرت رسالت مآب  کے  ساتھ  ازدواج کی داستان ھے ـ

” حضرت خدیجہ کی تجارت عرب کے اطراف و اکناف میں پھیلی ھوئی تھی اور آپ کی دولت کا شھرہ  تھا  چنانچہ اس بنا  پر  قریش  کے  دولت مند  طبقہ سے  تعلق  رکھنے  والے  افراد  چندین  بار پیغام  ازدواج  پیش  کر چکے  تھے ، لیکن جن کو زمانہ جاھلیت میں ”طاھره“  کھا جاتا تھا [2] اپنی پاکدامنی اور عفت کی بنا پر سب کو جواب دے  چکی تھیں ـ

 حضرت جعفر مرتضیٰ عاملی تحریر فرماتے ھیں ”ولقد کانت خدیجه علیها السلام من خیرة النساء القریش شرفا واکثر هن مالا واحسنهن جمالا ویقال لها سیدة القریش و کل قومها کان حریصا ًعلی الاقتران بها لو یقدر علیها [3]”حضرت خدیجہ قریش کی عورتوں میں شرف و فضیلت ، دولت و  ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے  سب  سے  بلند و بالا تھیں اور آپ کو سیدہ قریش کہا جاتا تھا اور آپ کی قوم کا ہر فرد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے  کا  خواہاں  تھا“ حضرت خدیجہ کو حبالئہ عقد میں لانے کے متمنی افراد میں ”عقبہ ابن ابی معیط “” صلت ابن ابی یعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفیان “جیسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حیثیت لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا[4] لیکن حضرت خدیجہ با وجود یکہ اپنی خاندانی اصالت ونجابت اور ذاتی مال و ثروت کی بن پر  بے شمار  ایسے  افراد  سے  گھری ھوئی تھیں جو آپ سے ازدواج کے متمنی اور بڑے بڑے مہر دے کر اس رشتے کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے ہمہ وقت آمادہ تھے، ہمیشہ ازدواج سے کنارہ کشی کرتی رہتی تھیں ـ

 کسی شریف اورصاحب کردار شخص کی تلاش میں آپ کا وجود صحراء حیات میں حیران وسرگرداں تھاـ ایسے عالم میں جب عرب اقوام میں شرافت و دیانت کاخاتمہ ہو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر کے عقیدہ و مذہب کی شکل اختیار کر چکے  تھے  خود  باعظمت زندگی گذارنا اور اپنے لئے کسی اپنے ہی جیسے صاحب عز و شرف شوہر کا انتخاب کرنا ایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا ، ایسے ماحول میں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کی نگاہ انتخاب رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئی جن کی صداقت و دیانت کا شھرہ  تھا، حضرت خدیجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتتدار کے مقابلے میں اعلی ظرف ، مجسمہ شرافت و دیانت اورعظیم کردار کے حامل رسول کو جو بظاہر تنگ دست ، یتیم اور بے سہارا  تھے  ترجیح دے کر قیامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دیا کہ دولت و شھرت اور اقتدار کی شرافت ، عزت اور کردار  کے سامنے کوئی حیثیت نھیں ہے۔ 

المختصر  برسر  اقتدار افراد کو مایوس کرنے والی ”خدیجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ از طرف خود پیغام پیش کر دیا[5] اور مھر  بھی  اپنے  مال  میں  قرار دیا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمایا ”لوگوں گواہ رہنا“”خدیجہ “ نے خود کو محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) سے منسوب کیا اور مھر  بھی اپنے مال میں قرار دیا ہے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام پر طنز  کرتے  ھوئے  کہا  :یاعجباه!ا لمهر علی النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگی کا اظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم میں فرمایا، ” إِذَا كَانُوا مِثْلَ‏ ابْنِ‏ أَخِي هذَا، طُلِبَتِ الرِّجَالُ بِأَغْلَى الْأَثْمَانِ وَ أَعْظَمِ الْمَهْرِ، وَ إِذَا كَانُوا أَمْثَالَكُمْ، لَمْ يُزَوَّجُوا إِلَّا بِالْمَهْرِ الْغَالِي‏“[6] اگرکوئی مرد میرے اس بھتیجے کے مانند ہوگا تو عورتیں اس کوبڑے بھاری مھر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمھاری طرح ہوا تواسکو خود گراں و بھاری مھر دیکر شادی کرناہوگی۔

مؤرخین کابیان ہے کہ جناب خدیجہ کی طرف سے عقدپڑھنے والے ان کے چچاعمرو ابن اسد اور حضرت رسول خدا کی طرف سے جناب ابوطالب تھے۔[7]

.............................................................................

حوالہ جات

[1] تلخیص سیرت النبی علامہ شبلی ص ۹۹ طبع لاہور ۱۹۶۵ ء۔

[2] الکامل فی التاریخ ج/ ۱ ص / ۴۷۲ ، دلائل النبوة ج / ۲ ص / ۶۶

[3] الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج۲/ص۱۰۷.

[4] السیرة النبویہ (دحلان ) ج / ۱ ص/ ۹۲

[5] بدایہ والنھایہ ج/ ۲ ص / ۳۵۸، بحار الانوار ج/ ۱۶ ص / ۲۲

[6] الکافی، ج10، ص704۔

[7] تاریخ اسلام ج ۲ ص ۸۷ طبع لاہور ۱۹۶۲ ء۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49